Wuzu Ki Barkaat
وضو کی برکات
اللہ کے حبیبﷺ نے فرمایا وضو مومن کا ہتھیار ہے۔ ہم بات کو سمجھنے کے لئے ایک عام مثال لیتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ ایک عام فہم شخص کے پاس کسی قِسم کا ہتھیار رکھنا قانوناً جرم ہے مگر جب مدِمقابل کوئی دشمن پیدا ہوجائے تو اپنی، اپنے کنبے اور وطنِ عزیز کی حفاظت کے لیے ہتھیار ناصرف رکھے جاتے ہیں بلکہ ہتھیاروں کےصحیح استعمال کا طریقہ بھی بتلایا اور سکھایا جاتا ہے۔ چونکہ آپ کے پاس اگر اپنی حفاظت کے لیے ہتھیار تو موجود ہیں مگر آپ کو ہتھیار کا صحیح استعمال نہ آتا ہو۔ تو یہ ہتھیار آپ کے پاس ہونا یا نہ ہونا برابر ہے خیر بالکل بھی برابر تو نہیں ہو سکتا اتنا تو فرق ضرور ہوگا کہ ہتھیار والے کا خوف بِنا ہتھیار والے کے دل میں ضرور ہوگا، معلوم ہوا کہ دشمن کے مقابلہمیں دشمن پر خوف مسلط کرنے اور اپنی حفاظت کے لیے ہتھیار کا ہونا بہتر ہے۔ ابلیس، مومن کا، مسلمان کا کھلم کھلا دشمن ہے اور ابلیس جیسے بڑے دشمن سے نمٹنے کے لئے آپ کے پاس وضو کا ہتھیار ہونا شرط ہے۔
اللہ کے حبیبﷺ نے ایک اور جگہ فرمایا کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ معلوم ہوا کہ طہارت کا مسلمانوں کی زندگیوں کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔ اِسی لیے صفائی کو نصف یعنی آدھا ایمان کہا گیا ہے۔ یعنی کُل ایمان کے دو حصے ہوئے ایک طہارت یعنی صفائی اور دوسرا باقی کی زندگی کے تمام روزمرہ کے معاملات مثلاً تعلیم، عِلم، ادب، ہنر، شادی بیا، غمی خوشی، سونا جاگنا عبادات الغرض کسی بھی ایمانی قوت کے ساتھ سفر کرنا وغیرہ شامل ہے۔ گو کہ دوسرے جزو کے اندر بھی بعض مقامات ایسے ہیں جہاں طہارت لازم ہے مثلاً نماز کے لیے طہارت شرط ہے۔ ایمان کا ایک حصہ طہارت ہو گیا اور دوسرے حصے میں باقی سب معاملات شامل ہیں۔ آپ نے طہارت کو پا لیا، خود کو پاک کر لیا آپ آدھے ایمان میں داخل ہو گئے ہیں اور کلِ ایمان کے حصول کے لیے باقی کے حصے پر آپ کو کوشش کر کے مکمل ایمان میں داخل ہو کر مومن بننا ہوگا ایسا مومن جو وضو کے ہتھیار سے ہر وقت باخبر ہو۔ چونکہ وضو مومن کا ہتھیار ہے۔ وضو کے لیے آپ کو پانی کی ضرورت ہوگی، طہارت یا پاکی تک پہنچنے کے لئے پانی کا ہونا ضروری ہے۔ بِنا پانی کے طہارت ممکن نہیں۔ سو معلوم ہوا کہ پانی کے ساتھ بھی ہمارا بڑا گہرا رِشتہ ہے۔
ایک بزرگ بیٹھے وضو کر رہے تھے کسی نے کہا کہ آپ کیا بار بار وضو کرتے رہتے ہیں۔ بزرگ نے بڑا قابل غور جواب دیا۔ کہا کہ پتر مسلمان نے جب بھی اپنی تاریخ لکھوائی ہے، مسلمان کی جب بھی تاریخ لکھی گئی ہے یا مسلمان نے جب بھی اپنی تقدیر بدلی ہے یا تو خون سے تقدیر بدلی ہے یا تو پانی سے اپنی تقدیر کو بدلہ ہے۔ معلوم ہوا کہ ہم بھول گیے ہیں اگر ہمیں کسی نے بتایا بھی تو ہم نے سنی ان سنی کر دی ہے۔ پانی کے ساتھ ہمارا بڑا گہرا اور پرانا رشتہ ہے چونکہ پانی کے بِنا طہارت ممکن نہیں۔ پانی ہمیں وضو تک پہنچاتا ہے اور وضو ہمیں اللہ کے آگے جھکنے اور سجدے کی توفیق دیتا ہے۔ وضو طاقت ہے، وضو تعلق ہے۔ وضو رابطہ ہے اللہ اور اللہ کے حبیبﷺ کے ساتھ۔
اللہ کے حبیب ﷺ کے پاس ایک تنگدست شخص آیا۔ اپنے حالات بیان کیئے اللہ کے حبیب ﷺ نے فرمایا ہمیشہ باوضو رہا کر۔ کافی عرصہ کے بعد جب وہ ہی صحابیِ رسولﷺ آپﷺ کی خدمتِ اقدس میں واپس تشریف لایا۔ آقاﷺ نے حالات پوچھے تو وہ شخص کہنے لگا کہ باوضو رہنے کی برکت سے اللہ نے بےشمار رزق عطا کر رکھا ہے۔ بلکہ اتنا رزق کہ اب میں محلے والوں اور دیگر بستی والوں کو بھی پالتا ہوں۔ سو معلوم ہوا کہ باوضو رہنے سے کشادہ اور برکت والا رزق بھی ملتا ہے۔
اللہ کے حبیبﷺ نے ایک اور جگہ فرمایا کہ باوضو ہو کر سویا کرو۔ باوضو سونے سے اللہ آپ کے سینے پر ایک نورانی فرشتہ مقرر فرما دیتا ہے جوکہ ساری رات آپ کی حفاظت کرتا ہے۔ ایک بزرگ دن کے اوقات میں لوگوں کو کلامُ للہ شریف پڑھایا کرتے تھے۔ رات کو اِن بزرگ کے گھر ایک ایک ڈاکو آگیا۔ وہ ڈاکو جب بھی چھت سے نیچے آنے کی کوشش کرتا تو۔ کیا دیکھتا ہے کہ دو چار ضعیف العمر بندے قرآن پڑھ رہے ہیں۔ ڈاکو یہ دیکھ کر چلا جاتا مگر مسلسل سات روز تک آتا بھی رہا۔ مگر یونہی روزانہ یہی ماجرا دیکھنے کو ملتا بالآخر کسی بہانے سے بزرگ سے کہا کہ آپ دن کو بھی قرآن پڑھاتے ہیں اور رات کو بھی، آپ آرام نہیں کرتے۔ بزرگ نے جواب دیا نہیں، میں تو رات کو سو جاتا ہوں اور کسی کو قرآن نہیں پڑھاتا۔ ڈاکو سمجھ گیا کہ معاملہ کچھ اور ہے۔ بالآخر تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ وہ بزرگ رات کو باوضو ہو کر سویا کرتے ہیں۔ یہ کمالات ہیں باوضو رہنے اور باوضو سونے کے۔ آپ کے ساتھ آپ کی حفاظت کے لئے اللہ کی طرف سے فرشتے آ جاتے ہیں۔
ہر شخص کی روح نیند کے عالم میں وجود کے قفس سے نکل کر روحِ زمین کی سیر کرتی ہے۔ حتیٰ کہ خلاؤں کی اور آسمان کی بھی سیر کرتی ہے۔ جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ روح کی خوراک اللہ اور اللہ کے رسولِ مقبولﷺ کا ذکر ہے۔ اب ہم اپنی معمولاتِ زندگی کے اندر روح کو ذکر سے خوراک دیتے نہیں ہیں اور اُمید لگاتے ہیں کہ ہماری روح عالمِ خواب کے اندر بیتُ اللہ شریف کا طواف کرے۔ نانا نا۔۔۔ ممکن نہیں ہے۔ ہر وجود کی روح اُس بندے کے اعمال کے حساب سے سفر کرتی ہے۔ جو دن کو دھوکا دیتا ہے ظلم کرتا ہے۔ اللہ اور اللہ کے حبیب ﷺ کے احکامات سے بغاوت کرتا ہے تو رات کو اُس کی روح بھی ویسے ہی پریشانیوں میں گِری پڑی ہوگی۔ اور جو دن کو طہارت و پاکیزگی کی مشق کرتا ہے رات کو اُس کی روح بھی ویسے ہی اچھی اچھی جگہ اور مبارک مقامات پر سفر کرے گی۔ بلکہ اچھے اہتمام کے ساتھ وضو کرنے یعنی دعائیں پڑھ کے وضو کرنے اور پھر باوضو رہنے اور باوضو سونے والے کی روح اللہ کے عرش تک پہنچ جاتی ہے۔ اللہ کے عرش کے سائے میں پہنچ جاتی ہے۔ اللہ کے عرش کے سائے میں ایسی روح کی حالت سجدے جیسی ہوتی ہے۔ یعنی ناصرف عرش کے سائے میں روح پہنچ جاتی ہے بلکہ سجدہ شکر بجا لاتی ہے۔ یہ باوضو رہنے کی براکات ہیں۔ وضو مومن کا ہتھیار ہے اور مومن کا کھلم کھلا دشمن ابلیس ہے۔ جب آپ باوضو رہتے ہیں۔ تو سب سے زیادہ تکلیف ابلیس کو ہی ہوتی ہے۔ اُس تکلیف کے بدلے میں ابلیس آپ کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ مگر وضو جیسا ہتھیار آپ کی مدد کرتا ہےابلیس کے مقابلے میں۔ باوضو رہنے سے عبادات اور سجدہ شکر بھی آسان ہو جاتا ہے۔ ہم وضو کی حقیقت کو بھول چکے ہیں۔ وضو محافظ ہے چونکہ باوضو شخص کے ساتھ اللہ کی حفاظت کا نظام آ جاتا ہے۔ وضو رابطہ ہے بلکہ وضو خود عبادت ہے اور ایسی عبادت ہے کہ جو بڑی بڑی عبادات کے ساتھ بندے کو جوڑتی ہے۔ وضو بندے کو بیتُ اللہ کے ساتھ جوڑتا ہے۔ وضو جو اتنی بڑی بڑی عبادات کے ساتھ بندے کا جوڑ پیدا کرتا ہے تو سوچیں وضو خود کتنی بڑی عبادت ہوگی۔
اللہ کے حبیبﷺنے فرمایا کہ کل بروزِقیامت میں اپنے اُمتیوں کو پہچان لوں گا۔ اصحابہٰ کرام رضی اللہ نے پوچھا یاسول اللہﷺ وہ کیسے؟ آقاﷺ نے فرمایا کہ جیسے تم کالے گھوڑوں میں اپنے سفید گھوڑوں کو پہچان لو ایسے ہی۔ آقاﷺ نے فرمایا کہمیں اپنے اُمتیوں کو اُن کے چہروں، پیشانیوں، ہاتھوں اور پاؤں سے پہچان لوں گا چونکہ وضو کرنے کی وجہ سے میرے اُمتیوں کے چہرے سورج کی طرح روشن ہونگے۔ سو معلوم ہوا کہ وضو سہارا بھی ہے۔ وضو نجات بھی ہےاور وضو پہچان بھی ہے۔ مگر افسوس کہ ہم وضو جیسی عظیم سنت کو بھول کر تنگیِ رزق کے شکوے کرتے پھر رہے ہیں۔ وضو کرنے سے انسان کے گناہ دُھل جاتے ہیں۔ بندہ پاک ہوجاتا ہے اور پاکی اللہ رَبُّ لعزت کو پسند ہےچونکہ اللہ خود پاک ہے۔ اور اللہ پاکی کو ہی پسند فرماتا ہے۔ وضو تمام انبیاں رسولوں کی سنت ہے، وضو تمام اصحابِ کرام رضی اللہ کی سنت ہے اور تمام اللہ والوں کا عمل بھی وضو ہی رہا ہے۔ وضو کرنے سے عبادت کرنا بھی آسان ہو جاتی ہے۔ ہمیشہ باوضو رہا کرے آپ کی زبان شکوؤں کی دنیا سے پَرے ہوجائے گی اور شُکرجیسی دولت آپ کو نصیب ہوگی۔ وضو علاج بھی ہے۔ تمام بیماریوں سے شِفا بھی ہے۔ کوشش کرے کہ ہر وقت باوضو رہا کریں۔ ہر بُری سے بُری وبا اور بیماری آپ کے قریب بھی نہیں آئے گی اور رزق بے بہانصیب ہوگا۔
بلکہ آج کی سائنس نے بھی یہ ثابت کردیا ہے کہ سر کا مسح کرنے، کلی کرنے، ناک میں پانی ڈالنے، ہاتھوں اور پیروں کو باربار دھونے کے کتنے فوائد ہیں۔ ہم نے آج کے ڈاکٹر کی بات کو مان لیا۔ اور ہاتھوں، پیروں اور چہرے کو بار بار دھونے لگے ہیں۔ مگر افسوس کہ چودہ سو سال پہلے بتانے والے کائنات کے عظیم ڈاکٹر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی بات کو نہیں مانا۔ ہاتھوں پیروں اور چہرے کو تو دھو ہی رہے ہو۔ تھوڑی اور ہمت کر کے وضو ہی کرلیا کرو۔ مگر نہیں۔ تب ہی تو ہم در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ دراصل ہم اپنے سبق کو بھول چکے ہیں۔ ہمیں سیرتِ نبیﷺ دوبارہ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ بلکہمیں بڑے ادب کے ساتھ اساتذہ کرام کو عرض کرتا ہوں کہ آپ اپنے طالبِ علموں کو وضو کی براکات بتائیں۔ اور اُنہیں تاکید کرے کہ وہ کمرہ تعلیم میں باوضو ہو کر بیٹھا کریں۔ جب بچے ایسا کرنےلگے گے تو سبق کو یاد کرنا، سمجھنا بھی اُن کے لیے آسان ہو جائے گا اور یہی بچے اپنے اساتذہ کرام کی دل سے حقیقی عزت کرنے لگے گے۔ ایسا کرنے سے بچوں کے دل میں دینِ متین کی محبت بھی اُجاگر ہو جائے گی۔
یقین جانیئے کہ آپ کے ہر کام میں وضو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کے لئے بہت بڑی مدد اور رہنمائی ہے۔ وضو کی اہمیت کا حق تو میں ادا نہیں کرسکا ہوں لیکن یہ اُمید ضرور رکھتا ہوں کہ آپ آئندہ باوضو رہا کریں گےاور یہ بھی اُمید لگاتا ہوں کہ باوضو رہنے کی تلقین آپ اپنے چاہنے والوں کو ضرور کریں گے۔ اللہ ہمیں وضو کی بدولت ظاہر اور باطن کی پاکی نصیب فرمائے اور اپنی اور اپنے حبیبﷺ کی محبت عطا فرمائے۔ آمین۔