Saail Aur Saail (1)
سائل اور سائل (1)
سائل کا معنی ہے مانگنے والا، سوال کرنے والا، سوالی یا بھکاری۔ ہر وہ شخص سائل ہے جو ضرورتمند ہے اور جو جو ضروتمند ہیں وہ مانگیں گے اور اپنی اپنی بساط کے مطابق دروازہ کھٹکٹائیں گے۔ سائل اور سائل میں فرق ہے۔ ایک وہ سائل ہے جواللہ سے مانگتا ہے۔ ایک وہ سائل ہے جو اللہ کے بندوں سے مانگتا ہے۔ ویسے تو سائل کئی طرح کے اور کئی روپ میں ہوتے ہیں۔ بعض تو سائل کے لبادے میں سخی گھوم رہے ہوتے ہیں۔ ایسے سائل کی سخاوت کے کیا ہی کہنے ہیں۔ لہذا سائل بہت سی اشکال اور بہت سے مقامات پر ہوتے ہیں۔ ہم سائل اور سائل کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک بچہ بہترین سائل ہے جو ضد کر کے اپنی ماں سے اپنی بات کو منوا لیتا ہے۔ والدین خود بہترین سائل ہیں بچوں کے حق میں۔ چونکہ ماں اللہ کے سامنے سائل بن کر اپنی اولاد کو دعا دیتی ہے۔ ماں کے برعکس ابا انتہائی بہترین سائل ہے جو کہ عموماً سخت دل ہوتا ہے بچوں کو کم ہی دُعا دیتا ہے مگر آقا کملی والے ﷺ نے فرمایا کہ باپ کی دُعا اولاد کے حق میں کبھی رَد نہیں جاتی۔ دعائیں لینے کی التجا مت کیا کریں بلکہ دُعائیں لینے کی وجہ بنا کریں۔ جیسے کہ آپ پرندوں کو دانہ پانی دے کر سائل بن سکتے ہو اور دعا لینے کی وجہ بھی بن سکتے ہو۔ المختصر سائل کے بہت سے روپ ہیں تمام انسان اللہ کے سامنے سائل ہیں۔ ہمارا معاشرہ سائلوں سے بھرا پڑا ہے چونکہ اُوپر بات ہو چکی ہے کہ ہر ضرورتمند سائل ہے۔ سو سائل اور سائل میں فرق ہوتا ہے۔
عموماً ہم بھیک مانگنے والوں کو سائل کہتے ہیں۔ بھکاریوں کے اندر کچھ پیشہ وار لوگ بھی شامل ہیں۔ جو کہ خود کو مظلوم اور معصوم پیش کر کے لوگوں کو بے وقوف بنا کر چلے جاتے ہیں۔ عام طور پر حقدار کو اُس کا حق کم ہی ملتا ہے چونکہ ہم لوگ حقدار تک پہنچنے کی زیادہ جدوجہد نہیں کرتے۔ کچھ حقدار ایسے بھی ہیں جنہیں سفید پوش کہا جاتاہے۔ وہ اپنی عزت بچانے کی غرض سے کبھی سامنے نہیں آتے اور کئی کئی دن روزے کی حالت میں گزار دیتے ہیں۔ ہمیں حقدار کی کھوج لڑانی چاہیے تاکہ مدد صحیح اور مستحق سائل تک پہنچی جاسکے۔
بچپن میں جو سائل دیکھنے کو مِلا کرتے تھے ویسے سائل اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ جو دے اُس کا بھی بَھلا جو نہ دے اُسکا بھی بَھلا۔ کوئی حمد پڑھ رہا ہوتا تھا۔ کوئی صوفیانہ کلام، کوئی نعتِ مبارکہ ﷺ تو کوئی اپنے کسی اور جوہر سے لوگوں کو لُبھا لیتا تھا۔ ایسے سائل کو جی چاہتا تھا کہ کچھ عطا کردیا جائے۔ آج کے سائلوں کی تعداد بےحد بڑھ چکی ہے اور سائل بھی بس نام کے ہی سائل ہیں۔
خیر یاد رکھنا سائل جیسا بھی ہو۔ سائل محسن ہوتا ہے۔ سائل آپ کو غنی کرنے کے لئے آتا ہے۔ سائل آپ کی تقدیر کو بدلنے کے لیے آتا ہے۔ سائل آپ کے رُتبے اور آپ کی حیثیت کو بلند کرنے کے لئے آتاہے۔ پھر تو سائل، سائل نہ ہوا سائل تو ہمارا محسن ہوا۔ چونکہ سائل تو ہمارے لئے خوشخبری کا پیشوا ہوتا ہے۔ سائل ہمارے رزق کو بڑھانے اور پاک کرنے کے لیے آتا ہے۔ بی بی عائشہ رضی اللہ عنہ کے دروازے پہ جب بھی کوئی سائل آتا تو کبھی خالی ہاتھ واپس نہ جاتا۔ سائل کو جب کچھ عطا کیا جاتا تو سائل بدلے میں دُعائیں دیتا۔ بی بی عائشہ بھی بدلے میں اُسی سائل کو واپس دُعائیں دیتیں تھیں۔ چونکہ آپ سائل کے آنے کی حقیقت کو جانتی تھیں۔
سائل کو کبھی بُرا مت جانو بلکہ سائل کو کبھی مت جِھڑکو۔ اگر اُس کی ممکن مدد کی جاسکتی ہے تو کر گزرو مگر اُسے جِھڑکی مت دو اِس سے منع کیا گیا ہے۔ بلکہ اللہ کے حبیب ﷺ نے فرمایا کہ کسی کو اُس کی بُری اور خستہ حالت دیکھ کر بُرا اور حقیر مت جانو ہوسکتا ہے کہ وہی شخص رَبّ کی بارگاہ میں بہت محبوب اور چُنا ہوا ہو اور ایسا شخص جب کسی بات پر قسم کھا لے تو اللہ کو حیا آتی ہے اپنے ایسے بندے کی قسم کو رَد کرتے ہوئے۔ اِس لیے جسقدر ممکن ہو احتیاط ہی برتی جائے۔ حسبِ توفیق عطا کردیا جائے تو بہتر نہیں تو چپ چاپ معذرت کر لی جائے۔
حضرتِ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب تمہارے پاس کوئی سائل ایسی حالت میں آئے کہ!!! جس کے پاس عربی نسل کا عالیٰ گھوڑا ہو، سفید رنگ کا اچھا لباس پہنا ہو، سر پر اونچی دستار بھی ہو۔ پھر وہ شخص گھوڑے سے بِنا اُترے تم سے کہیں کہ مجھے اللہ کے نام پر دے دو۔ علی ؑ نے فرمایا کہ تمہارا حق یہ ہے کہ تم اُس کی حالت کو مت دیکھو بلکہ یہ دیکھو کہ کس کے نام پر مانگ رہا ہے۔۔۔ اللہ۔۔۔ اللہ کے نام پر۔ سو بِنا اُس کی حالت کو دیکھے عطا کر دو۔ سائل کو جھڑکنے سے منع کیا گیا ہے۔
اللہ کے حبیب ﷺ نے فرمایا کہ اُوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ ایک اور جگہ فرمایا کہ اللہ کی راہ میں ایسے خرچ کرو کہ دوسرے ہاتھ تک کو خبر نہ ہو۔ سو کوشش کریں کہ ہمیشہ اللہ کی راہ میں تقسیم کرنے والا مزاج ہی رکھیں۔ تقسیم کے معاملہ میں سے سب سے پہلے پڑوسی اور خاندان کے مستحق لوگ ہونے چاہیے پھر دیگر مستحق حضرات کو تلاش کریں۔ لوگوں کی عزتِ نفس کا خیال بھی رکھیں۔ حقدار تک اُس کے حق کو احسن طریقہ سے پہنچائیں۔ اللہ خود غنی ہے اور اپنے بندوں میں سے غنی بندے کو ہی زیادہ پسند فرماتا ہے۔ اللہ اپنی اور اپنے حبیب ﷺ کی مہربانی سے ہمیں غنی بنا دے۔