Kam Az Kam Aik Darakht Laga Jao
کم از کم ایک درخت لگا جاؤ
درخت ناصرف انسانوں بلکہ تمام جانوروں، پرندوں، درندوں اور دیگر تمام جانداروں کے لیے اللہ کا ایک بہت بڑا انعام ہے۔ درختوں کے جہاں دیگر جانداروں کو بہت سے فوائد ہیں وہاں انسانوں کو اِسقدر درختوں کے فوائد ہیں کہ جیسے درختوں کا انسانی زندگی پر بہت بڑا احسان ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ درخت ہمارے مُحسن ہیں۔ چونکہ درخت ہمیں سانس کے لینے میں مدد دیتے ہیں، درخت ہمارے ماحول کو خوشگوار بناتے ہیں، درخت ہمیں پھل، سایہ اور لکڑی دیتے ہیں۔ سائنسی تحقیقات کے مطابق درختوں کے بس فوائد ہی فوائد ہیں اور اسقدر فوائد کہ تمام قومیں درختوں اور پودوں کے لگانے کے لئے جدوجہد ہی کرتی دِکھائی دیتی ہیں۔ مگر افسوس پاکستانی قوم نے صرف فائدہ لینا اور کھانا ہی سیکھا ہے۔
عموماً درخت تین شکلوں کے اندر پائے جاتے ہیں پھلدار، سایہ دار اور سوکھا درخت۔ اِن سبھی درختوں کی اصل ایک بیج ہے، پہلے بیج زمین کے اندر بیجا جاتا ہے، پھر بیج کو ایک مشکل سفر سے گزرنا پڑتا ہے، بیج کو اپنی اصل شکل بیج والی ختم کرنا پڑتی ہے، پھر بیج کو زمین کا سینہ چیر کر باہر آنے کے لئے ایک مشکل اور طویل سفر طے کرنا پڑتا ہے، جب یہی بیج ایک ننے پودے کی مانند زمین پر نمودار ہوا تو بہت نازک تھا اور کئی طرح کے موسموں سے اِس ننے دو کلیوں والے پودے کو لڑنا پڑا، کبھی تیز طوفانوں سے لڑا، کبھی آندھی سے، کبھی بارشوں سے، اور کبھی پھر سے اپنے نشان کو مِٹا دیا کسی سیلاب یا پانی کے اندر ڈوب کر، یہی سلسہ ایک طویل عرصے تک چلتا رہا بہت سی صبحیں بہت سی شامیں آئی، کئی سورج اِس ننھے پودے کے سامنے ڈھلیں تب جا کر کہیں یہ ننا پودا خود کو سنبھالنے کے لائق ہوا، رفتہ رفتہ تنے میں مضبوطی آتی گئی اور قد بڑھتا گیا، شاخ سے شاخ نکلی اور ان شاخوں سے تنے بنتے گئے اور بالآخر سخت زمین کے اندر اتنی مضبوط جڑیں پکڑ لی کہ اب اُنہی طوفانوں، اُنہی آندھیوں سے کہا کہ جاؤ جاؤ اپنی اوقات میں رہو ہم موسم کی چالوں سے گرنے والے نہیں۔
کوئی بیج سایہ دار تو کوئی پھلدار درخت بنا۔ پھلدار درخت اِک لمبے عرصے تک انسانوں، پرندوں اور جانوروں کو خوب فائدہ دینے لگتا ہے۔ اگر صرف سایہ دار درخت ہو تو بھی انسانوں، جانوروں اور پرندوں کو ضرور ایسے درخت سے فائدہ ہوتا ہے۔ پھر یہی درخت عمر کے ساتھ یا کسی بھی وجہ سے اگر سوکھ جاتا ہے تو بھی سوکھے درخت سے انسانوں، جانوروں اور پرندوں کو نفع ملتا ہے، ایسے درخت کی لکڑی ایندھن کے کام آتی ہے، گھر بنانے اور گھر کے دیگر سامان بنانے کے کام آتی ہے، کچھ جانور سوکھے ہوئے درخت کو شوق سے کھاتے ہیں، کیڑے، مکوڑے اور دیگر حشرات کی لزیذہ خوراک سوکھا ہوا درخت ہوتا ہے، کچھ پرندے بڑے شوق سے سوکھے ہوئے درختوں پر بسیرا کرتے اور بیٹھتے ہیں، یعنی قدرت کے کارخانے میں کوئی بھی شے بے سبب اور بے وجہ نہیں ہوتی۔ قدرت کبھی بھی، کسی کی قربانی کو رائیگاں نہیں جانے دیتی۔ چونکہ اِس بیج کو ایک درخت بننے کے لیے بہت سے حالات سے لڑنا پڑا تھا جو کہ اِس درخت کی قربانی تھی۔
اللہ کسی کی قربانی کو چاہے ذرا برابر خیر ہو یا شر ہو رائیگاں نہیں کرتا، ہر کوشش یا قربانی کا نتیجہ ضرور نکلتا ہے وہ نتیجہ خواہ کیسا بھی ہو آپ کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے مگر رَبّ کے عِلم کے مطابق بالکل درست نتیجہ ہوتا ہے۔
درختوں کا لگانا ایک سنت عمل اور صدقہِ جاریہ ہے۔ درختوں کے انگنت فوائد ہیں۔ درخت جیسے بھی ہو پھلدار، سایہ دار یا فقط سوکھا ہوا۔ اُس درخت کے تمام انسانوں اور تمام جانداروں کو بےشمار فوائد ہیں۔ درختوں کی اہمیت کو آج کی سائنس بھی مان چکی ہے۔ تمام ممالک اور تمام ادارے اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے درختوں اور پودوں کے لگانے میں کوشاں ہیں۔ درخت جاندار ہیں اور باقی کے تمام جانداروں کی مدد کے لئے یہ درخت حیرت انگیز مدد کر رہے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ ایک کھجور کے تنے کے ساتھ سہارا لگا کر خطبہٰ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ بعد میں صحابہ کرام رضی اللہ نے فرمایا کہ آپ ﷺ کے لیے ایک ممبر کا بندوبست ہونا چاہیئے۔ آقا ﷺ نے صحابہٰ کی رائے کو پسند فرمایا۔ جب مسجد میں ممبر بنا دیا گیا تو آقا ﷺ کو اور دیگر تمام صحابہٰ کرام رضی اللہ کو اُس کھجور کے سوکھے ہوئے تنے کے رونے کی آواز آئی۔ آقا ﷺ نے ممبرِپاک سے اُتر کر اُس تنے کو اپنے سینے مبارک سے لگایا اور کچھ باتیں آقا ﷺ نے اُس تنے سے کیں تب جا کر وہ کھجور کا تنا چپ ہوا۔ صحابہٰ کرام نے فرمایا کہ اُس تنے کو آقا ﷺ کا ساتھ اتنا محبوب تھا کہ وہ آپ ﷺ کی جدائی کو قبول نہ کرسکا اور فرمایا کہ اگر اُس تنے کو آقا ﷺ خود چپ نہ کرواتے تو وہ قیامت تک روتا رہتا۔ خیر اِس واقع سے ہمیں بہت خاص سبق ملا ہے۔ پہلی بات درخت اور پودے لگانا صدقہ جاریہ ہے۔ آپ اِس جہانِ فانی میں رہو یا نہ رہو، آپ کو آپ کے عمل کا ثواب تواتر سے ملتا رہے گا۔ آپ اگر غور کریں تو یہ پودے اور درخت نہ صرف صدقہ جاریہ ہیں بلکہ یہی پودے اور درخت کل ہماری مغفرت کے لئے سفارش کا سبب بھی بنے گیں چونکہ ہمیں مندرجہ بالا حدیث سے معلوم ہوا ہے کہ درخت سنتے اور بولتے بھی ہیں۔ اِس میں حیرانگی والی کوئی بات نہیں ہے۔ سائنس بھی اِس بات کو تسلیم کر چکی ہے کہ درخت آپس میں باتیں کرتے ہیں۔
برسوں سے بلکہ بچپن سے بڑھاپے تک ہم درختوں سے فوائد ہی لیتے آ رہے ہیں۔ کبھی پھلوں کی صورت، کبھی سایہ تو کبھی لکڑی کی صورت۔ مگر افسوس ہم نے باتیں بہت کیں ہیں مگر عمل نہیں۔ ہم نے کبھی پودے اور درخت نہیں لگائے بلکہ جہاں تک ہو سکا اِن کو کاٹا اور فائدہ ہی لیا ہے۔
ہمیں درخت اور دیگر پودے لگانے چاہیئے۔ اِن پودوں کا معاشرے کو، وطن کو اور وطنِ عزیز کے تمام باسیوں کو فائدہ ہے بلکہ جب تک اُس درخت سے اللہ کی مخلوق کو فائدہ ملتا رہے گا ہمیں اپنا حِصہ بھی ضرور اُس میں سے ملتا رہے گا۔ بلکہ جب تک اُس درخت کے آخری پتے کو ایک حقیر کیڑا اپنا آخری لقمہ نہ بنا لے تب تک بس فائدہ اور ثواب ملتا ہی رہے گا۔ میں اُمید کرتاہوں کہ آپ اپنے حصے کا کم ازکم ایک درخت ضرور لگا جاؤ گے۔