Chooriyon Walay Bazu
چوڑیوں والے بازو
عورت خواہ کسی بھی روپ میں ہو ماں، بہن، بیٹی، بیوی، وہ عورت ہے، عورت ایک مشکلات کا گھر ہے چونکہ جو سفر عورت طے کرتی ہے وہ ناصرف مرد کے بس کی بات ہے بلکہ مرد سوچنے سے بھی ڈرتا ہے عورت پہلے بیٹی ہوتی ہے، پھر بہن، پھر بیوی اور پھر ماں بن کر جنت کی نا صرف وارث بن جاتی ہے بلکہ جنت بھی اُسی عورت بنام ماں کے پاؤں میں رکھ دی جاتی ہے چونکہ عورت نے ساری زندگی سفر بہت مشکل طے کیا ہوتا ہے یہ رَبّ کی طرف سے عورت کو ایک بڑا انعام ہے، جونہی بیٹی پیدا ہوئی باپ کے لیے رحمتوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں چونکہ عورت رحمت ہے، بندے سے ہر نعمت کی پوچھ ہوگی جو بھی اُسے نعمت عطا کی گئی ہے مگر رحمت کی پوچھ نہیں ہوگی اور بیٹیاں رحمت ہیں، بیٹیوں سے بدگمان مت ہوا کریں یہ رَبّ کا نظام ہے اور وہی اپنی حکمتوں اور اپنے رنگوں کو جانتا ہے وہ کسی کو بیٹیاں تو کسی کو بیٹے اور کسی کو مِلا کر یعنی بیٹیاں اور بیٹے دونوں عطا کرتا ہے اور کسی کو یونہی تمام عمر دُعا پہ لگائی رکھتا ہے کہ تم مانگتے ہی رہو، یہ نظام اُسی کا ہے وہی جانتا ہے مگر اُس سے اُمید کی کِرن کبھی مت ڈھلنے دینا یہاں انسان بے بس ہوتا ہے۔
یہ بے بسی اور عاجزی بھی انسان کو بہت کچھ دے جاتی ہے، خیر لڑکوں کی نسبت لڑکیاں جلد بڑی اور سمجھدار ہو جاتی ہیں، لڑکے ابھی تک شراتوں اور مستیوں کے دور میں ہی رہتے ہیں کہ والدین کو بیٹی کے رشتے کی فکر لگنا شروع ہو جاتی بلکہ لڑکی کو خود بھی اپنے وجود کو ڈھک کر رکھنے کی پرکھ یا سمجھ قدرتی طور پر ہی ہو جاتی ہے اور اُسے یہ بھی محسوس ہونے لگتا ہے کہ باہر کی دنیا کی نسبت وہ چار دیواری کے اندر زیادہ محفوظ ہے اِس کے برعکس لڑکے ابھی تک کاکے کے کاکے ہی رہتے ہیں روز اپنے والدین سے اپنی عزت کروا رھے ہوتے ہیں۔ والدین بےچارے سمجھا سمجھا کر تھک چکتے ہیں کہ اپنی ذمے داریوں کو سمجھ جاؤ مگر مجال ہے کہ کوئی لڑکا سمجھنے کو تیار ہو حیرت ہے پھر بھی چاہنے والوں کے سامنے اور مہمانوں کے سامنے والدین کہتے پھرتے ہیں کہ میرا بیٹا میرا بیٹا۔ دوسری مشکل عورت کو اپنا گھر، اپنے رشتوں کو چھوڑ کر جانا پڑتا ہے اور وہ بھی بعض اوقات ایسے گھر عورت کو جانا پڑ جاتا ہے کہ شاید سارے کا سارا گھر ہی اُس کے لیے اجنبی ہو، مگر کمال کا حوصلہ لے کر نکلتی ہے کہ دوسرے گھر کو جنت نما بنا دیتی ہے اور اُسی کاکے کو ایک مرد بنا دیتی ہے۔ اُسے ذمے داری کی سوچ عطا کر دیتی ہے جسے والدین چیخ چیخ کر سمجھا رہے ہوتے تھے، واہ رے عورت، پھر اور مشکل سر پہ آن پڑی کہ بچے کی پیدائش کے لیے ایک مشکل اور طویل سفر طے کر کے بالآخر زندگی اور موت کی بازی کو کھیل کر بڑی تکلیف سے بچے کو پیدا کرتی ہے اور اب بچوں کی جیسے نوکرانی بن کر پرورش کرنے لگتی ہے ایسے کہ جیسے اُس کا اپنا پیٹ ہی نہ ہو، ایسے کہ جیسے اُس کی اپنی کوئی خواہش ہی نہ ہو، یہی عورت جب بیٹی تھی تو ماں باپ یا بھائی کی طرف سے ملنے والی چوڑیوں کو لے کر خوش ہوا کرتی تھی اور اُنہی چوڑیوں والے بازوؤں کی خوشی میں ہی فقط رہتی تھی اِس سے بڑی خواہش کو کبھی اظہار میں نہیں لایا، اس کے علاوہ جو مِلا قبول کر لیا اور شکوؤں سے ہمیشہ اجتناب ہی رکھا، پھر چوڑیوں والے بازوں لے کر گھر سے رُخصت ہو گئی اور کبھی ایسا بھی ہوا کہ اِک لمبی چُپ کے سہارے تیز طوفانوں سے اکیلی لڑتی رہی۔
ہاں جب تک یہی بازوں چوڑیوں میں تھے تو گھر بھی بنیں، خاندان بھی بنیں اور نسلیں بھی بنی جونہی بازوؤں سے چوڑیاں اُتری تو اپنے مقام کو بھول گئی اور مرد کے مقابلے میں آگئی اپنے حق کو لینے کی آڑ میں مرد پر حکمرانی کو سوچ لیا، تمہارا حق جو اللہ اور اللہ کے حبیب ﷺ نے مقرر کیا ہے وہ تو واقع تمہیں ملنا چاہیے اور جو نہیں دیتے وہ گناہگار ہیں مگر تم اپنے بازوؤں سے چوڑیاں تو مت اُتارو ہمیں ڈر لگنے لگتا ہے، یاد کرو تمہاری تو بڑی خوشی ہی چوڑیوں والے بازوؤں میں تھی، تم بھول گئی ہو تمہیں یاد کرنا ہوگا، دینِ اسلام سے پہلے جو عورت کے ساتھ سلوک کیا جاتا تھا ہر عقل والے کو معلوم ہے مثلاً زندہ درگور کرنا، عورت کو حقیر جاننا، عورت کو کسی بھی فیصلے میں شامل نہ کرنا، عورت کو منحوس جاننا وغیرہ میں کہتا ہوں کہ آج کی عورت کو آقاﷺ کا ضروربالضرور شکریہ ادا کرنا چاہیے چونکہ عورت کو عزت آقاﷺ نے دی ہے اور مرد کو حکم دیا کہ اِن کو یعنی چوڑیوں والے بازوؤں کو عزت دو۔ اے عورت ہمیں یاد ہے آپ کی عزت، آپ کا احترام کرنا، آپ پھر سے اپنی چوڑیاں ڈھونڈ لو اور اُنہیں پہن کر رکھا کرو کہیں بہت دیر نہ ہو جائے، کہیں آج کا سورج ڈوب ہی نہ جائے، سورج جو ڈوب گیا تو کیسے اندھیرے سفر پہ چلو گی اور اندھیرے سفر پر تم نے چوڑیاں پہن بھی لی تو کیا حاصل یعنی جب لوٹتے لوٹتے بہت دیر ہو جائے اور کشتی کنارے پر جالگے وہاں کوئی بھی تمہارا منتظر نہ ہو، اپنا نہ ہو تو کِسے دِکھاؤ گی، لو میں نے چوڑیاں پہن لی ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ ہر عورت کو عورت بن کر زندگی گزارنے کی توفیق بخشے اور اللہ ہمیں اپنی اور اپنے حبیب ﷺ کی محبت نصیب فرمائے۔ آمین۔