Sunday, 14 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Qamar Naqeeb Khan
  4. Main Mukammal Nahi Hoon?

Main Mukammal Nahi Hoon?

میں مکمل نہیں ہوں؟

میں سوچ رہا تھا کہ پیسے آئیں گے تو بال لگواؤں گا، پھر میں نے رجنی کانت اور اکشے کھنہ کو دیکھا۔ ان کے پاس ڈھیروں پیسہ ہے پھر بھی یہ بال نہیں لگواتے۔ میں نے سیکھا کہ قدرت نے آپ کو جیسا بنایا اور زمانے کی ٹھوکروں نے جیسا تخلیق کیا وہی سب سے بہتر ہے۔

میں نے یہ سوچ کر ایک عجیب سی دلجمعی پائی کہ انسان کی اصل پہچان بالوں، قد، رنگ یا چہرے کے کسی تناسب میں نہیں چھپی ہوتی بلکہ اس سفر میں چھپی ہوتی ہے جو وہ زندگی کے ساتھ مل کر طے کرتا ہے۔ زمانہ ہمیں کہیں کند بناتا ہے، کہیں نرم، کہیں ٹوٹے ہوئے شیشے کی طرح بکھیر دیتا ہے، مگر انہی دراڑوں میں روشنی بھی تو داخل ہوتی ہے۔ انہی خراشوں میں وہ کہانی لکھی ہوتی ہے جو ہمارے وجود کو معنی دیتی ہے۔

بال لگوانے یا نہ لگوانے کا سوال آخر کار شناخت کا سوال ہے۔ اگر پہچان باہر سے بنتی تو زمانے کے سب امیر ترین لوگ سب سے مطمئن اور پُرسکون ہوتے۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ میں نے ایلون مسک کو بھی روتے دیکھا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سکون باہر سے جوڑا نہیں جاتا، اندر سے اگتا ہے۔ بال، کپڑے، گاڑی، فینسی جوتے، یہ سب انسان کو سجاتے ہیں، مگر صرف ظاہر کو۔ باطن کی تعمیر ان چیزوں سے نہیں ہوتی۔ باطن اس وقت بنتا ہے جب انسان اپنے زخموں کو قبول کرتا ہے، اپنے خوفوں کو مانتا ہے اور اپنی کمزوریوں کے ساتھ جینا سیکھتا ہے۔

میں نے محسوس کیا کہ کبھی کبھی ہمارے اندر جو خلا ہوتا ہے وہ بالوں کی کمی یا چہرے کی کسی خامی سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس وہم سے پیدا ہوتا ہے کہ "میں مکمل نہیں ہوں"۔ یہی وہم ہماری روح کے دروازوں میں زنگ لگا دیتا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم ہر دن مکمل ہو رہے ہوتے ہیں، ہر تجربہ ہمیں ایک نئی شکل دے رہا ہوتا ہے۔ قدرت نے ہمیں نامکمل اس لیے بنایا ہے کہ ہم خود کو مسلسل تشکیل دیتے رہیں، جیسے کوئی مجسمہ ساز اپنے ہی پتھر میں سے ایک نئی شکل نکالتا ہے۔

انسان وہ نہیں جو آئینے میں دکھائی دے، انسان وہ ہے جو آئینے کے سامنے کھڑا ہو کر اپنے آپ سے جھوٹ نہیں بولتا۔ جس نے اپنے نفس کے ساتھ صلح کر لی وہ دنیا سے لڑائی کی خواہش بھی کھو دیتا ہے۔ پھر اسے یہ فکر بھی نہیں رہتی کہ لوگ کیا کہیں گے، دنیا کیسا دیکھے گی، یا کون سی کمی کس نظر کو چبھ رہی ہے۔

اور آخر میں، میں نے یہ بھی سمجھا کہ زندگی کبھی ہمارے بال جھاڑ کر، کبھی ہمارے خواب توڑ کر ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ خوبصورتی کا اصل معیار تسلسل ہے، مستقل کوشش، مستقل سچائی، مستقل بیداری۔ جن کے سر پر بال نہیں، ان کے اندر شاید حکمت کے جنگل اگتے ہوں۔ جن کی پیشانی خالی ہے، ان پر وقت کی تحریریں زیادہ صاف لکھی ہوتی ہیں۔

لہٰذا میں نے سوچا کہ اگر قدرت نے مجھے ادھورا بنایا ہے تو اس میں بھی کوئی ہنر ہے، کوئی فلسفہ ہے، کوئی حکمت ہے۔ شاید یہ کمی ہی میرا امتیاز ہو۔ شاید یہی عدمِ تکمیل میرا جمال ہو۔ میں نے خود کو پہلی بار ایسے دیکھا اور پہلی بار اچھا لگا۔۔

Check Also

Aik Anokha Hakeem

By Mumtaz Hussain