Khyber Pakhtunkhwa Mein Kya Tareekh Khud Ko Dohra Rahi Hai?
خیبر پختونخوا میں کیا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟

خیبر پختونخوا پاکستان کا وہ خطہ ہے جہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک نہ ختم ہونے والی آزمائش رہی ہے۔ یہاں کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر بار جب دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی گئی، دشمن نے نئے چہرے اور نئی حکمت عملی کے ساتھ سر اٹھایا۔ آپریشن ضربِ عضب اور ردالفساد جیسے بڑے فوجی اقدامات کے ذریعے ماضی میں دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی تھی، لیکن اب ایک بار پھر خیبر پختونخوا دہشت گردوں کے نشانے پر اور نئی لہر نے خطے کو غیر مستحکم کر دیا ہے۔
یہی خیبر پختونخوا ہے جس نے دہشت گردی کے عفریت کا سامنا کیا، یہی وہ زمین ہے جہاں معصوم بچوں کے بستے بارود سے بھرے گئے، جہاں مساجد، بازار اور تعلیمی ادارے نشانہ بنے، جہاں امن کے متلاشی گھروں کے دروازے پر موت کا راج رہا۔ نئی لہر کی شدت نے خطے کے باسیوں کے ذہنوں میں وہی پرانے خدشات زندہ کر دیے ہیں، وہی خوف، وہی غیر یقینی اور وہی بے بسی۔
دہشت گردی کا یہ احیاء کیا کسی اچانک حادثے کی مانند ہے، یا یہ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ہونے والا عمل ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو خیبر پختونخوا کے گلی کوچوں میں زیر بحث ہے۔ آئے دن بھتہ خوری کے نوٹس مل رہے ہیں، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بڑھ رہے ہیں، بارودی سرنگیں پھٹ رہی ہیں اور سرحد پار سے حملے ہو رہے ہیں۔ کیا ہم 2010 کے اس تاریک دور کی طرف دوبارہ پلٹ رہے ہیں جب بازاروں میں چلنا بھی ایک خطرہ تھا، جب ہر اجنبی شخص کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، جب ریاست اور عوام کے درمیان ایک غیر یقینی رشتہ جنم لے چکا تھا؟
سوشل میڈیا پر گردش کرتی ویڈیوز مزید پریشان کن ہیں۔ عام لوگوں کو خوفزدہ کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ مناظر کسی ویران سرزمین کے نہیں، بلکہ اس ملک کے ہیں جس نے دہشت گردی کے خلاف لاتعداد قربانیاں دیں، جہاں آپریشن ضربِ عضب اور ردالفساد جیسے بڑے فوجی آپریشن کیے گئے۔ اگر آج بھی دہشت گردوں کے گروہ کھلے عام متحرک ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی وجوہ ہیں جن کی بنا پر دہشت گردی کا نیٹ ورک ایک بار پھر جڑ پکڑ رہا ہے؟ یہ مسئلہ محض خیبر پختونخوا کا نہیں، بلکہ پورے ملک کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے یا ہم نے اس سے کچھ سیکھا بھی ہے؟
افغان طالبان کے افغانستان پر دوبارہ قبضے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے حملوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ افغان سرزمین کو دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، جہاں سے فتنہ الخوارج اور داعش خراسان کے جنگجو پاکستان میں کارروائیاں منظم کر رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق 40 فیصد سے زائد ٹی ٹی پی جنگجو افغان صوبہ کنڑ اور ننگرہار میں موجود ہیں اور انہیں مقامی سطح پر سہولت کاری میسر ہے۔
امریکہ-طالبان دوحہ معاہدے کے بعد طالبان قیدیوں کی رہائی نے بھی فتنہ الخوارج کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع فراہم کیا۔ یہ ایک ایسا لمحہ فکریہ ہے جس پر سنجیدہ حلقوں کی جانب سے بار بار نشاندہی کی گئی اور تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ انتہا پسندوں کی سرگرمیاں یقیناََ پریشان کن اور اس حوالے سے ریاست اور حکومت سے سخت اقدامات کئے جانے کے مطالبے زور پکڑتے جا رہے ہیں۔
پاکستان کی ماضی کی پالیسی ناکامیاں بھی موجودہ بحران کا سبب بنی ہیں۔ 2018 سے 2022 کے دوران اس وقت کی حکومت نے فتنہ الخوارج کے ساتھ کئی سطح پر اعلانیہ اور غیر اعلانیہ مذاکرات کیے، جو کہ ریاستی مفادات کے خلاف ثابت ہوئے اور دہشت گردوں کو ازسرِنو منظم ہونے کا موقع ملا۔ ان مذاکرات کے دوران فتنہ الخوارجکے مطالبات آئینی دائرہ کار سے باہر تھے، جن میں فاٹا کے انضمام کو ختم کرنا بھی شامل تھا۔ اسی عرصے میں خیبر پختونخوا میں دہشت گردی دوبارہ سراٹھانے لگی، جس کے نتیجے میں سیکیورٹی فورسز کو شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومتوں نے ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسنے کی روایت کو برقرار رکھا، جس کا خمیازہ آج عوام اور ریاست دونوں بھگت رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کا بڑھتا ہوا خطرہ نہ صرف انسانی جانوں کے لیے بلکہ ملکی معیشت کے لیے بھی زہر قاتل ثابت ہو رہا ہے۔ صنعتکاروں اور کاروباری برادری کو بھتہ خوری کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے اور نوجوان طبقہ دہشت گرد گروہوں کے لیے آسان ہدف بن چکا ہے۔ صوبائی حکومت پر حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں مبینہ الزامات عائد کرتی ہیں کہ وہ بعض عناصر دہشت گردوں کے ساتھ ملی بھگت میں ملوث ہیں اور بھتہ خوری، زمینوں پر قبضے اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ان کا کردار بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پشاور میں 30 فیصد سے زائد زمینوں کے تنازعات میں فتنہ الخوارج سے منسلک گروہوں کو غیر قانونی قبضے میں ملوث پایا گیا ہے۔
اس بحران سے نمٹنے کے لیے فوری اور سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ افغان طالبان عبوری حکومت پر دباؤ بڑھایا جائے تاکہ وہ اپنی سرزمین پر موجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کرے۔ خیبر پختونخوا میں معاشی ترقی کے لیے خصوصی بحالی فنڈ قائم کیا جائے، جس میں سی پیک کے تحت سرمایہ کاری کی جائے تاکہ مقامی صنعتوں کو دوبارہ فعال کیا جا سکے۔ فاٹا کے سابقہ اضلاع میں نوجوانوں کے لیے فنی تربیت کے مراکز قائم کیے جائیں تاکہ انہیں روزگار کے مواقع فراہم کیے جا سکیں اور وہ دہشت گرد گروہوں کے چنگل میں نہ پھنسیں۔ انسدادِ بھتہ خوری کے لیے مخصوص قانون سازی کی جائے اور خصوصی عدالتیں قائم کرکے مجرموں کے خلاف فوری کارروائی کو یقینی بنایا جائے۔
خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کا دوبارہ سر اٹھانا محض ایک سیکیورٹی چیلنج نہیں بلکہ ایک پیچیدہ جیوپولیٹیکل بحران کا نتیجہ ہے۔ اس کے بنیادی اسباب میں طالبان کی مدد سے چلنے والی سرحد پار دہشت گردی، ماضی کی پالیسی ناکامیاں اور بدانتظامی شامل ہیں۔ اگرچہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے بے شمار قربانیاں دی ہیں اور وہ آج بھی فرنٹ لائن پر کھڑی ہیں، لیکن یہ جنگ محض فوجی طاقت سے نہیں جیتی جا سکتی۔ اس کے لیے پائیدار ترقی، سفارتی حکمت عملی اور قومی یکجہتی ناگزیر ہے۔ پاکستان کو ایک جامع اور مؤثر پالیسی ترتیب دینا ہوگی جو نہ صرف دہشت گردوں کا خاتمہ کرے بلکہ مستقبل میں ان کے دوبارہ سراٹھانے کے امکانات کو بھی مکمل طور پر ختم کر سکے۔ بصورت دیگر، یہ جنگ ایک نہ ختم ہونے والی دلدل میں تبدیل ہو جائے گی جس سے نکلنا ناممکن ہو سکتا ہے۔