Blackmail
بلیک میل

"سوچنا بھی مت۔۔ بہت پچھتاؤ گی۔۔"
واجد کی آواز میں ایسا کچھ تھا کہ ثمینہ اٹھ کر بیٹھنے پر مجبور ہوگئی۔
"کیا مطلب؟"
اس نے کانپتی انگلیوں سے ٹائپ کیا۔
"ہر بار چھوڑ کر جانے کا فیصلہ تم نہیں کروں گی۔۔ اس بار فیصلہ میں کروں گا۔۔ اگر تم نے یہاں سے جانے کی کوشش کی تو میں تمہاری ساری چیٹ اور تصویریں تمہارے شوہر کو بھیج دوں گا۔۔ اس کا کینیڈا کا نمبر میں پہلے ہی حاصل کر چکا ہوں۔۔ کسی خوش فہمی میں مت رہنا۔۔ بار بار دھوکہ نہیں کھاؤں گا۔۔"
موبائل کی اسکرین پر چمکتے الفاظ نے ثمینہ کی بینائی سلب کر لی۔ اس کے ہاتھ کانپنے لگے اور ٹانگوں نے اس کو بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا۔ اس نے لڑکھڑاتے ہوئے قریب رکھی کرسی کا سہارا لیا اور کانپتی انگلیوں سے واجد کا نمبر ڈائل کرنے لگی۔۔ بیل جاتی رہی مگر کسی نے بھی فون نہیں اٹھایا۔ ثمینہ سخت پریشانی کے عالم میں سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔
***
"ثمینہ۔۔ مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے جیسے تم معاملے کو ٹال رہی ہو۔۔ تم یہاں آنا ہی نہیں چاہتیں۔۔"
مزمل کئی دن سے ثمینہ کے بہانے سن رہا تھا۔ وہ ہربار کسی نہ کسی کام کا نام لے کر کچھ دن اور بڑھانے کی لئے کہہ رہی تھی۔
"نن۔۔ نہیں نہیں۔۔ ایسا نہیں ہے۔۔ میں۔۔ میں تو بس۔۔ یہ میرے لئے بہت بڑا فیصلہ ہے۔۔ اصل میں۔۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔"
ثمینہ نے بمشکل بات سنبھالی تھی۔
"ڈر۔۔ تمہیں اپنے شوہر کے پاس کینیڈا آنے میں ڈر لگ رہا ہے۔۔"
مزمل کی آواز میں حیرت ہی حیرت تھی ثمینہ پھر پھنس گئی۔
"نہیں۔۔ تمہارے پاس آنے سے نہیں۔۔ وہ۔۔ سفر اور جہاز میں سفر کرنے سے ڈر لگ رہا ہے۔۔"
مزمل گہری سانس کے کر رہ گیا۔
***
ثمینہ اور مزمل کی شادی کو پانچ ہو چکے تھے۔ مزمل پچھلے دس سال سے کینیڈا میں تھا۔ وہ یہاں تعلیم حاصل کرنے آیا تھا مگر دیگر لوگوں کی طرح ورک ویزہ پر چند سال گزار کر یہاں کی شہریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ ثمینہ اس کی بیوی ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی چچازاد بھی تھی۔ مزمل کراچی کا رہنے والا تھا جب کہ ثمینہ کی ساری زندگی اسلام آباد میں گزری تھی۔ یہ شادی مزمل کی پسندیدگی کی بنیاد پر ہی ہوئی تھی اس کے ماں باپ نے اسی پر شکر گزارا کہ اس نے کینیڈا میں کسی عیسائی لڑکی سے شادی نہ کر لی۔
شادی کے تین ماہ بعد مزمل واپس کینیڈا آگیا مگر وہ وعدہ کرکے آیا تھا۔
"تم فکر نہ کرو۔۔ میں واپس جاتے ہی کاغذات تیار کروا لوں گا۔۔ بہت جلد تم میرے پاس کینیڈا آ جاؤ گی۔۔"
ثمینہ بھی یہ ہی چاہتی تھی مگر حالات نے کچھ ایسا رخ اختیار کیا کہ وہ اگلے پانچ سال تک مزمل کے پاس نہ جا سکی۔ اس عرصے میں مزمل کے والدین کا انتقال ہوگیا اور ثمینہ تنہا رہ گئی۔ اسے واپس اسلام آباد اپنے والدین کے پاس آنا پڑا۔
***
"بور ہو رہی تھی۔۔ تو واٹس ایپ اسکرول کرتے کرتے تمہارا نمبر سامنے آگیا۔۔ سوچا ہیلو ہائے کر لوں۔۔ کیسے ہو؟"
ثمینہ اپنی مخصوص دلبرانہ ہنسی ہنسی۔
"آ۔۔ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ۔۔"
واجد نے بھی ہنس کر مہدی حسن کی غزل کا مصرعہ گنگنا دیا۔
"چھوڑو بھی پرانی باتیں۔۔ ہم اچھے دوست بھی تو تھے۔۔ تم ہی کہتے تھے نا۔۔ کہ ثمینہ جتنا تم نے مجھے سمجھا ہے اتنا کوئی نہیں سمجھ سکا۔۔ تو بس میں نے سمجھ لیا تھا کہ تم میرے ساتھ اچھی زندگی نہیں گزار پاؤ گے۔۔"
ثمینہ نے بیڈ پر لیٹے ہوئے کہا
"کہا تو اور بھی بہت کچھ تھا۔۔ مگر وہ اب کہاں یاد ہوگا۔۔"
واجد نے اداس لہجے میں کہا
"چھوڑو یہ سب۔۔ یہ بتاؤ۔۔ بیوی بچے کیسے ہیں تمہارے؟ تم خوش تو ہو نا؟"
ثمینہ پچھلی باتوں کے ذکر سے کترا رہی تھی۔
"بیوی نے طلاق لے لی ہے اور بچی عدالت نے ماں کے حوالے کر دی ہے۔۔"
واجد نے بنا لگی لپٹی رکھے کہہ دیا ثمنہ گنگ سی رہ گئی۔
"کیوں۔۔ میرا مطلب ہے کیسے؟ کیا ہوا تھا۔۔"
"لمبی کہانی ہے۔۔ پھر کبھی سنا دوں گا۔۔ ابھی تو میں صرف تمہاری آواز سننا چاہتا ہوں۔۔ مجھ سے بات کرو۔۔ ثمینہ۔۔"
واجد عجیب جذب کے عالم میں بول رہا تھا۔
***
ثمینہ ایک خوبصورت رنگین مزاج لڑکی تھی۔۔ شوخ و چنچل۔۔ ہنسی مذاق۔۔ سیر تفریح۔۔ دوستیاں۔۔ بس یہ ہی زندگی تھی۔
جب تتلیاں چمن میں بے حجابانہ گھومنے لگیں تو بھنورے بھی آ ہی جاتے ہیں۔ ثمینہ کے ارد گرد بھی بھنورے جمع ہونے لگے۔
آئے دن نئی نئی دوستیاں، رات گئے تک باتیں، تحفے تحائف اور بریک اپس۔ وہ کسی کے ساتھ مخلص نہیں تھی اس کا مقصد صرف وقت گزارنا اور فائدہ اٹھانا تھا اور وہ یہ ہی کر رہی تھی۔ لڑکوں کے اس فہرست میں ایک نام واجد کا بھی تھا۔ واجد سے ثمینہ رفاقت باقیوں سے زیادہ لمبے عرصے چلی۔ واجد کا پیسہ ان کے درمیان ذہنی ہم آہنگی کے دورانیے کو بڑھاتا رہا۔ واجد ثمینہ کو لے کر کافی سنجیدہ بھی تھا۔۔ مگر پھر مزمل بیچ میں آ گیا۔۔
"میں مجبور ہوں واجد۔۔ پاپا اپنے بھائی کی محبت میں مجھے قربان کر رہے ہیں۔۔"
[عورت کا سب سے ہتھیار اس کی مجبوری ہی تو ہے]
جب بھی مفادات کے ٹکراؤ ہوتا ہے عورت اپنے مجبور اور بے بس ہونے کا خول چڑھا لیتی ہے۔ ثمینہ کے لئے کینیڈا جانے میں بڑی کشش تھی اس لئے اس نے واجد سے دامن چھڑا لیا اور مزمل کے ساتھ ہو لی۔
***
مزمل اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ اس کو ہمیشہ سے کینیڈا جانے کا شوق تھا۔ پڑھائی میں اچھا تھا اور لگن سچی تھی جلد ہی اس کی دلی خواہش پوری ہوئی۔ ثمینہ اس کو بچپن سے ہی بہت پسند تھی مگر عامیانہ انداز میں پیش قدمی کرنا اس کی مزاج کا حصہ نہیں تھا لہذا اس نے کچھ عرصہ صبر سکون سے گزارا اور جیسے ہی وہ کینیڈا میں سیٹل ہوا، گھر والوں کو چچا کے گھر رشتہ لینے بھیج دیا۔ دونوں ہی طرف سے کسی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور یوں ثمینہ مزمل کی ہوگئی۔ مزمل کی خواہش تھی کہ جلد از جلد ثمینہ کو اپنے پاس بلوا لے مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ ثمینہ کو کینیڈا بلانے کا معاملہ مختلف وجوہات کی بنا کر آگے سے آگے ہی بڑھتا رہا۔ ثمینہ کی تنہائی اس کی سب سے بڑی دشمن بن گئی اور وہ ایک بار پھر ان ہی راہوں پر چل دی جن پر وہ شادی سے پہلے کافی سفر کر چکی تھی۔
اور اب جب کہ مزمل نے تمام معاملات سیٹ کر لئے، تب ثمینہ وہاں جانے سے کتراتی نظر آ رہی تھی وہ مختلف حیلوں بہانوں سے مزمل سے وقت لیتی رہی مزمل نے اس کے احتراز کو محسوس کر لیا تھا۔ وہ اب بھی یہ ہی سمجھ رہا تھا کہ ثمینہ اکیلی اتنے طویل سفر سے ڈر رہی ہے۔
***
"تم۔۔ تم اتنے گھٹیا انسان ہو۔۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔۔"
ثمینہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ واجد کا خون پی جائے موبائل فون سے سنائی دیتے اس کے قہقہے فون سے ثمینہ کے کانوں میں پگھلے سیسے کی طرح گر رہے تھے۔
"کل شام پانچ بجے۔۔ سن ویو گیسٹ ہاؤس۔۔ روم نمبر 6۔۔ ٹائم کا خیال رکھنا۔۔ ورنہ چھ بجے تمہارا شوہر تم سے فون کرکے میرے بارے میں پوچھے گا۔۔"
واجد نے فون بند کردیا۔ ثمینہ کسی گھرے ہوئے جانور کی طرح ہراساں تھی۔ وہ ہاتھوں میں منہ چھپا کر رونے لگی۔ واجد کی دوستی اس کی عزت کی دشمن بن گئی۔ پہلی بار وہ اپنی مرضی سے گئی تھی اس کے بعد واجد کے مطالبات بڑھتے چلے گئے ثمینہ کے پاس اس کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا مگر اب یہ سب اس کی برداشت سے باہر ہوچکا تھا۔
اس نے واجد کو وائس میسج کیا۔
"واجد میں نہیں آؤں گی۔۔ میں کل ہی کینیڈا چلی جاؤں گی۔۔ تم وہاں تک نہیں پہنچ سکتے۔۔ اگر مزمل نے مجھے چھوڑ بھی دیا تب بھی میں کینیڈا میں اپنی باقی زندگی گزار دوں گی مگر تمہارا گندے وجود اپنے قریب نہیں آنے دوں گی۔۔ سنا تم نے۔۔"
شدت الم ضبط سے اس کی آواز پھٹ سی گئی۔
***
مزمل نےحتمی فیصلہ کر لیا۔
اس نے پاکستان جا کر ثمینہ کو اپنے ساتھ لانے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ ثمینہ کو سر پرائز دینا چاہتا تھا لہذا اس نے کسی کو بھی آمد کے بارے میں نہیں بتایا۔ دسمبر کی سرد رات تھی جب وہ کراچی ائر پورٹ پر اترا۔ آبائی گھر کے بجائے اس نے ہوٹل میں قیام کرنا مناسب سمجھا۔ وطن واپس آ کر اس کو بہت اچھا لگ رہا تھا۔ تھکاوٹ کے باجود وہ کافی دیر تک کمرے کی بالکونی میں کھڑا روشنیوں کے شہر کی سرد ہوا کو محسوس کرتا رہا۔
"ثمینہ مجھے اچانک اپنے سامنے دیکھ کر کتنی خوش ہوگی۔۔"
وہ دل ہی دل میں سوچ کر مسکرا دیا۔ کل علی الصبح اسلام آباد کی فلائٹ تھی۔ لہذا اس نے سو جانے میں ہی عافیت جانی۔ بستر پر لیٹ کر اس نے آخری بار موبائل چیک کرنے کی نیت سے آن کیا تھا مگر پھر وہ ساری رات سو نہ سکا۔
کسی انجان نمبر سے کئی تصویریں اس کو بھیجی گئی تھی۔ تصاویر نہیں وہ بم تھیں جنہوں نے مزمل کی ذات کے پرخچے اڑا دئیے۔ اس کی بیوی اس کی بچپن کی محبت اس کی عزت ایک غیر مرد کے ساتھ اس حال میں موجود تھی کہ اگلی نظر نہ ڈال سکا۔
آخر میں صرف ایک چھوٹا سا میسج تھا۔
"جس موبائل میں یہ تصایریں ہیں اس موبائل کی قیمت صرف ایک کروڑ ہے۔ کیا آپ وہ موبائل خریدنا چاہیں گے؟"
واجد نے ڈبل گیم کھیلی تھی۔ اگر مزمل رقم دے دیتا تو وارے نیارے تھے ورنہ ثمینہ کے ہرجائی پن کا بدلہ تو پورا ہو ہی جاتا۔
"منظور ہے۔۔ میں تو کینیڈا میں ہوں۔۔ مگر میں کسی بندے کے ہاتھ پیسے بھجوادوں گا۔۔ موبائل پر پاس ورڈ لگا کر اس بندے کو دے دینا۔۔ اب بتاؤ۔۔ پیسے کب اور کہاں پہنچانا ہیں؟"
مزمل نے کانپتی انگلیوں سے میسج ٹائپ کیا۔ واجد کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ اس کو بالکل اندازہ نہیں تھا مزمل اتنی جلدی مان جائے گا۔ ایک کروڑ کی رقم حاصل ہونے کا خیال ہی اس کے دل کی دھڑکن بڑھا رہا تھا۔
"کل۔۔ رات بارہ بجے۔۔ کالا بیگ۔۔ جی ایٹ ممتاز سٹی بلڈنگ کے رائٹ سائیڈ پہلی گلی میں۔۔"
واجد نے فوراً جواب دیا۔
"ڈن۔۔"
مزمل نے بےجان انگلیوں سے ٹائپ کرکے موبائل بیڈ پر پھینک دیا۔ کمرے میں اس کا دم گھٹنے لگا تھا وہ پھر سے بالکونی میں آگیا کچھ دیر قبل جو ٹھنڈی ہوا اس کو راحت دے رہی تھی اب اس کا تن بدن جلا رہی تھی۔ روشنیوں کا شہر اس کو قبرستان لگ رہا تھا۔ وہ وحشت کے عالم میں ہوٹل سے نکل گیا۔
***
"بی بی۔۔ دو گھنٹے ہو گئے۔۔ ایک ہی رٹ۔۔ دیکھو۔۔ اب جھوٹ بولنا بند کردو اور سچ بتاؤ۔۔"
پولیس ثمینہ کو کئی گھنٹوں سے گھیرے بیٹھی تھی مگر اس کا ایک ہی جواب تھا۔
"مجھے کچھ نہیں معلوم۔۔ میں کچھ نہیں جانتی۔۔ میرا شوہر کینیڈا میں رہتا ہے۔۔ وہ یہاں کیسے آ سکتا ہے۔۔"
وہ رو رو کر ایک ہی بات کہہ رہی تھی۔
لیڈی انسپکٹر کے صبر کا پیمانہ چھلک گیا۔ اس نے ثمینہ کا سر پکڑ کر میز پر رکھے کاغذات پر جھکاتے ہوئے کہا
"20 دسمبر رات دس بجے تمہارے شوہر کی کراچی آمد کا ریکارڈ۔۔ یہ 21 دسمبر شام پانچ بچے اسلام آباد آنے کا ریکارڈ۔۔ یہ اسی رات واپس کراچی جانے کا ریکارڈ۔۔ 22 دسمبر صبح سات بجے کینیڈا واپس جانے کا ریکارڈ۔۔ یہ دیکھو۔۔"
اب کی بار لیڈی انسپکٹر نے موبائل فون آن کرکے اس کی آنکھوں میں گھسا دیا۔
"یہ تمہاری نازیبا ویڈیوز اور تصویریں۔۔ یہ دیکھو۔۔ اس موبائل میں تمہارے شوہر کا کینیڈا کا نمبر۔۔ اس میں یہ چیٹ۔۔ او بی بی۔۔ بس کر دو اور اقرارِ جرم کر لو کہ تم نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر اپنے آشنا واجد کو قتل کیا ہے کیوں کہ وہ تم کو بلیک میل کر رہا تھا۔۔ بس یہ بتاؤ تمہارا شوہر تمہیں یہاں کیوں چھوڑ گیا؟ واجد کے سر میں کس نے گولی ماری؟ تم نے یا تمہارے شوہر نے۔۔ وہ پستول کہاں ہے؟ بتاؤ۔۔ بولو۔۔"
لیڈی انسپکٹر ثمینہ کے کان پر چیخ رہی تھی اور اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا تھا۔
"مم۔۔ میں کچھ نہیں جانتی۔۔ مزمل کب آیا۔۔ نہیں نہیں۔۔ وہ تو کینیڈا۔۔"
اب کی بار لیڈی انسپکٹر خود کو روک نہ پائی اور اس کا زناٹے دار تھپڑ ثمینہ کے ہوش و حواس لے گیا، وہ کرسی پر جھول سی گئی۔

