Tasawur e Riyasat O Tarz e Hukmrani
تصور ریاست و طرز حکمرانی
یوں تو دنیا کی تاریخ بے شمار جنگی جرائم اور علاقائی اختلافات سے بھری پڑی ہے۔ ان پر سوز واقعات و جنگ وجدل نے انسانیت کو داغدار کر دیا ہے۔ دور جدید میں تمام مفکریں کا نظریہ ہے کہ جنگ کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں ہر مسئلہ کے لیے صلح اور حدبندی لازمی ہے۔ صلح و حدبندی قانوں سے مشروط ہو اور قانوں طاقت کی اکائی ہے جتنی زیادہ مضبوظ قانون اتنی ہی زیادہ طاقتور ریاست۔ حدبندی یعنی حدود ریاست کے سطر جہاں تک قانون حاکم ہو۔ نظریہ ریاست کے حوالے سے یونانی، مذہبی اور مغربی نظریات قابل غور ہیں۔
سب سے پہلا نظریہ ریاست افلاطون نے پیش کیں اس کے نظریہ میں عدالت مقدم رہی اور ذھن انسانی کو محور ریاست قرار دیا۔ انہوں نے اپنی مثالی ریاست کو تین قسموں میں مدغم کر دیا یعنی بادشاہت، اشرافیہ اور جمھوریت، اپنی کتاب الجمہوریہ کہتے ہیں کہ بادشاہ مقدم ہے اس وقت تک جب تک ذاتی مفاد ریاست پر غالب نہ ائے۔ ان کا نظریہ صدیوں تک ریاست کے ستون میں نقش ہوگیا۔ برصغیر کی مغلیہ حکمرانی یہ ثابت کررہی ہے کہ خود پرستی کے دلدل میں پھسنے کے بعد حاکم و حکمرانی کمزور ہو جاتی ہے اور ایسی طرز حکومت اندرونی اور بیرونی چپلقشوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی ہے۔ بحر حال افلاطون نے بادشاہت اجاگر کر کے ریاست میں بغاوت کے راستے کھولے کیونکہ اندرونی بغاوت یعنی باغیوں کے خلاف ان کے ہاں کو مضبوظ نظریہ نہیں پایا جاتا کہ جس کے ذریعے ریاست کو مستحکم بنائے۔
دوسرا نظریہ تھوکریسی ہے جس میں حاکمیت کا محور حاکم اعلی یعنی خدا کی ذات یا ان کے نمائندے ہیں یہ نظریہ تمام مذاہب میں پایا جاتا ہے ہندو دھرم کا تصور حکمرانی شری کرشن نے پیش کی ارجن کو مخالفین سے لڑنے کے لیے جن باتوں کی تعلیم دی تھیں وہ حکمرانی کے رموز تھے اور ان باتوں کو ہندو دھرم کی مقدس کتاب گیتا میں نقل کی گئی ہے۔ اس لڑائی میں ارجن کرشن کی جلالت کے سائے میں تھے اور کرشن اشور کا نمائند خاص تھا تب ہی رموز و اصول حکمرانی سیکھنے پڑھے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان پر جانے کے بعد کلیساؤں کو تھیوریٹیکل ریاست کا مرکز قرار دیا گیا۔ روحانی فیض کے ساتھ امور حکمرانی بھی کلیساوں کے ہاتھ اگیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا برصغیر میں آنا کلیسائی حکومت کے حدوداربعہ کو بڑھانے کی کوشش تھیں جس میں کسی حد تک کامیاب ہوئے۔ بحر حال تھوکریٹیکل نظریہ تمام مذاہب میں ہونے کے باوجود تشدد پر مبنی ہے اس کے خلاف کھڑا ہونا مذہب کے خلاف کھڑا ہونا ہے اور اس کا کم از کم سزا سزا موت۔ کیونکہ یہ مذہبی رجانات کی پیدوار ہے اسی لیے اسکا تعلق جزبات سے ہیں۔
ایک جدید نظریہ ریاست جو کہ سیکولرازم ہے جس کو مغرب نے تخلیق کیں ہے لوگ سیکولر ریاست کو لادینیت سے تعبیر کرتے ہیں سیکولر ازم کا مطلب ہے غیر مذہبی ریاست ہے جس میں کسی بھی مذہب کو خاص درجہ حاصل نہیں ہوتا اور تمام مذاہب کے حقوق کا لحاظ رکھا جاتا ہے یورپ میں سیکولر دراصل تحریک کلیسائی کے فرسودہ نظام کے خلاف تھیں اس کا مقصد دین کو حکومت سے الگ کرکے ریاست کے ماتحت کرنا تھا جس میں مغرب کامیاب ہوئی۔
آخری تصور ریاست نیشنلیزم ہے جس کا محور عوام ہے یہ ریاست کبھی جذبوں سے وجود میں آتی ہے جیسا کہ ہٹلر کی تحریک نازی جس میں عیسائیوں کو جوش دلایا جرمن یہودیوں کے خلاف لڑنے لے لیے اسی طرح لینس کی تحریک جس میں محنت کشوں کو ہوش دلایا گیا، جنگ آزادی کی تحریک اور اسی طرح چھوٹی بڑی تاریخی تحاریک جو دنیا کے مختلف حصوں میں قومیت کے نام سے اٹھی قومی ریاست کے تصور کی عکاس ہے۔
ان تمام طرز ہائے ریاست و حکمرانی پہ غور کرنے کے بعد فیصلہ کرے کہ اکیسوی صدی میں دنیا کے لیے کونسا نظام مفید ہے۔
اگر تھوکریسی مفید ہے تو اس میں مخالفیں کا خون کیوں جائز ہے؟ اگر سوشالزم بہتر ہے تو دوسرے اقوام کو ساتھ رہنا کا حق کیوں نہیں حاصل؟ اگر Monarchy صیح تھیں تو دنیا سے کیوں ختم ہوئی؟ اگر سیکولرزم بہتر ہے تو اس میں مذہب کی گنجائش کیوں نہیں؟ ذرا سوچیں !