Apni Soch Badlain (1)
اپنی سوچ بدلیں (1)
دنیا کی فطرت تبدیل ہونا ہے، خدا کی ذات اپنے مخلوق میں تبدیلی لاتی ہے۔ دن ورات کی تبدیلی، بحروں میں آب کا مدوجز، خلقت انسانی میں خلیہ واحد سے لیکر نظاموں سے مربوط انسان بنے تک کی مختلف تبدیلیاں دراصل فطری تبدیلیاں ہیں، انسان روخلقت سے تبدیلی پسند ہے کیونکہ تولیدی طور پر انسان میں تجسس کاحس موجود ہوتا ہے اور تجسس ہمیشہ تبدیلی طلب ہوتا ہے۔ اور جس سے فکری نشونما ممکن ہے تجسس کا تعلق عقل سے ہے اور افعال اظہارعقل کو ہی فکر کہا جاتا ہے انسان کو چاہے کہ ہمیشہ منفی فکر کونکال کر مثبت فکر ذھن میں بساۓ۔ کیونکہ مثبت روش فکر انسان کو غلامانہ طرز زندگی سے باہر نکالتا ہے اور یہ انسان کوخوداری سے نکال کر خودانحصاری کی طرف راغب کرتا ہے۔
ایک کامیاب انسان ہمیشہ مثبت سوچتا ہے اور ایک اچھے مصاحب آپ کومثبت سوچنے میں مدد دیتا ہیں۔ اچھے مصاحب ہمیشہ اپنے اچھے خیالات آپ میں منتقل کرتا ہے۔ ہم اکثر چیدہ اور چھوٹی چیزوں کونظرانداز کرتے ہیں، چھوٹے اور بنیادی چیزوں پرغور کرنے کی صورت میں ہی چیز اور ہدف کا صحیح ادراک ممکن ہے۔ سوچ میں تبدیلی کا مطلب ہے رائج العام روش سے آگے کا سوچنا۔
ا۔ جامع نقطہ نظر کے ساتھ اپنے اردگرد کے لوگوں سے آگے کا سوچیں۔ ۲۔ جب بھی کسی ایک چیز پر نظر مرکوز کریں دوسری شے کو ذھن سے بے دخل کردیں۔ ۳- تخلیقی سوچ اپنائیں نقل کرنا اور روش غیراپنانا چھوڑ دے اور جدت پسند بنیں۔ ۴۔ اپنے خیالات پر یقین رکھیں اور ہمیشہ خیالات حقیقت پسندی پر مبنی ہو۔ ۵۔ آپ اسٹر یحیک سوچ کو استعمال کریں یعنی آپ کا آج کا کام کل کیلے جہد (سمت مہیا کرے)۔
۲۔ ہر ناممکن نظر آنے والی شے کیلئے ممکن تلاش کر ے آپ اچھے مفکر (مثبت فکر رکھنے والا تب بن سکتے ہیں جب آپ سب سے پہلے خودکو در یافت کریں گے۔ خودکو دریافت آپ جب کر یں گے۔ جب آپ اپنے بارے میں حقیقت پسندی کے ساتھ سوچیں گے۔ اکثر انسان حقیقت پسند نہیں اپ بھی ایک بدن رکھنے کے باوجود تین ہیں۔ ا۔ ایک آپ ہیں جو دوسرے آپ کو سمجھتے ہیں۔۲۔ ایک آپ ہیں جوآپ لوگوں کودیکھنا چاہتے ہیں۔ ۳۔ ایک آپ ہیں جوحقیقت ہے جس سے آپ بے خبر ہیں، اسی حقیقت کو آپ خود در یافت کر سکتے ہیں۔ خود میں تجسس کے ذریعے سے اور مثبت تبدیلیوں کے ذریعے سے، چلے کہ خودکودر یافت اور ایک حقیقی زندگی کو جو ہم میں چھپی ہوئی ہے۔ تلاش کریں۔۔
۱)خودکلامی میں تبدیلیی لائے؟ ایک منٹ نکال کے سوچیئے، آپ نے اپنے بارے میں کیا سوچا اور کیا کہا؟ کیونکہ آپ کے خیالات و جذبات آپ کے مزاج کا زریعہ ہے۔ خودکلامی میں آپ اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کا جواب اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں یادر کھیں، Positive مثبت خودکلامی آپ کی خوداعتمادی کو بڑھانے اور منفی سیلف ٹاک جذبات کو روکنے کا ایک طاقتور ذریعہ ہے۔ اتب ہی خودکلامی میں مہارت رکھنے والے اکثر پراعتماداور حوصلہ افزا ہوتے ہیں۔
منفی کی جگہ مثبت خودکلامی کیسے پیدا کریں؟ مثال: ا۔ مجھے آج تقر یر کرنی ہے، مجھے نہیں معلوم میں کر پاوں گا یا نہیں اگر بہتر نہیں ہوئی تو لوگ کیا سوچیں گے میری عزت لوگوں کے سامنے کم ہوگی۔ متبادل: اس کے برعکس آج میں تقریر کرسکتا ہوں، اگر کوئی تنقید کرے تو کوئی مسئلہ نہیں میں اپنی غلطیوں کو کم کرنے کی کوشش کروں گا۔
مثال: ۲۔ میں یہ کام نہیں کرسکتا، یہ کام صرف ایک ہفتے میں نہیں ہوسکتا ممکن نہیں۔ متبادل: مجھے بہت سارے کام کرنے ہیں مگر ایک وقت میں ایک ہی کام کروں گا میں پوری توانائی اس ایک کام میں صرف کروں گا، کیا پتا دوست بھی مد دکریں۔
مثال ۳: کتنا مضحلہ خیز ہے! کتنامشکل ہے! متبادل: میں کرسکتا ہوں، میں مثبت سوچنے کی کوشش کر سکتا ہوں۔ اپنے اندرونی ناقد (نقاد کوختم کرنا نتیجہ خیز اور مثبت اندرونی گفتگو کاطریقہ سیکھنا بہتریں خودکلامی کے بنیادی اصول میں اپنے اندرونی مکالمے کومنفی سے مثبت میں تبدیل کر نا آپ کی زہنی ہمت اور زندگی دونوں کیلئے مفید ہے۔
سوچنے کا زوایہ کیسے بدلے؟ اکثر منصوبوں کو ہم خودکلامی کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیشہ ظاہری طور پرمشکل نظر آنے والی چیز کھل کیلئے ہم ذھن میں مختلف Plans بناتے ہیں اور یہ Plans خودکلامی کے ذریعے وجود میں آتے ہیں، انسان اپنے ذھن میں بعض اوقات غلط خاکہ تیار کرتا ہے تو وہ غلط خاکہ سازی مسئلہ کواورمشکل بنا کے پیش کرتی ہے۔ بالکل اسی طرح آپ کے سامنے ایک بڑاغبارہ پڑا ہو اود اس پردنیا کا نقشہ بنا ہو۔ آپ سے کہا جار ہا ہو کہ اس اٹھائیں۔ آپ اسے globe سمجھ کے کہیں میں نہیں اٹھا سکتا تو آپ نہیں اٹھا سکتے۔ کیونکہ آپ کے سامنے موجود شئے کی غلط خاکہ سازی ہے کیونکہ آپ نے چیز کی ظاہری ساخت کو دیکھ کر اندازہ لگایا آپ دومنٹ کیلئے اپنی سوچ کو بدلیں۔ اورخودکلامی کے ذریعے سوچنے کازوایہ بدلے ہمت سوچ میں پیدا کریں اور قریب جا کے کوشش کر یں تو وہ مشکل نظر آنی والی شی آپ کو آسان نظر آۓ گی۔ یادرہے، وہ سوچ جو آپ کو ہدف سے دور کریں منفی سوچ ہے اور وہ سوچ جوکوشش کرنے پرا کساۓ مثبت ہے زندگی میں خودکلامی کے ذریعے خودکوناامیدی سے بچاۓ سوچ میں ہمت پیدا کریں اورفکری زاویہ میں تبدیلی لاۓ۔ آپ کے اپنے ساتھ گفتگو آپ کی ذہنیت کا عکاس ہے آپ اپنی ذہنیت کو upgrade کریں اورخودکو بتائیں میں کرسکتا ہوں۔ تو واقعہ آپ کر سکتے ہیں !
۲) بول چال میں تبدیلی: ہرانسان اپنی زبان کے نیچے پوشیدہ ہے عالم و جاہل، مہذب وغیر مہذب میں فرق کرنے کا معیارزبان ہے۔ زبان ہی کے ذریعے سے ہی انسان اصلاح کرتا ہے، معاشرتی فکری تربیت بھی زبان گوئی کے ذریعے سے ہے ممکن ہے۔ دوسری طرف اگر اسی زبان کوآزاد چھوڑ دی جاۓ، تو یہ فساد فی العرض کا سامنا بھی فراہم کر سکتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں زبان گوئی کاحق ادانہیں ہوتا یہ جانتے ہوۓ بھی کہ نا شائستگی، گالم گلوچ اور دشنام غیر مہذب انسان کی روش ہے روز مرہ کے معملات میں زبان گوئی میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے ہمارے معاشرے میں بد کلامی انتہا کو پہنچی ہے۔۔
معاشرتی خامیاں: اس دور کا المیہ ہے کہ جب ہم کسی سے بات کر رہے ہوتے ہیں تو بین الکلام غیر مہذب یا ناشائستہ الفاظ کا استعمال کر تے ہیں اور مفہول ہماری اصلاح کرنی کی کوشش کرتا ہے تو ہم فورا کہ دیتے ہیں، مجھے ایساہی بولنا آتا ہے، فلان بھی تو ایساہی بولتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ انتہائی غیر مہذبانہ روش ہے اگر ہم اپنی غلطیاں کوخندہ پیشانی سے قبول کرے ناشائستہ لفظ یا جملے کی جگہ شائستہ الفاظ استعمال کرنے کی کوشش کریں تو نہ صرف ہم زبان گوئی کی غلطیوں سے مبراء ہوں گے بلکہ ہم سے سیکھنے والے بھی غلطی کی طرف رجوع کرنے کی صورت میں اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کر ینگے۔ یادر ہے کہ زبان انسان کی شخصیت کا مظہر ہے زبان ہی کے ذریعہ سے انسان کی علمی سطح کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
گفتگو کرنے کا بہترین طریقہ: گفتگو کے وقت الفاظ کومنظم کرنا ضروری ہے گفتگو میں شائستگی اور جملوں میں وقفہ کے ساتھ گفتگو کرنا چاہئے تا کہ الفاظ کے چناؤ کیلئے جملوں کے درمیان وقفہ ملے جس سے آپ کو مناسب اورمتوازن الفاظ ادا کر نے میں آسانی ہو۔
نوٹ: اسلام نے خش گوئی، لغویات در تمام غیراخلاقی اقوال جومعاشرے میں فساد پھیلانے کا سبب ہے ہر حرام قرار دیا ہے مگر ہم لوگ اس طرح متوجہ ہی نہیں ہے کہ موسیقی بھی ایک برائی ہے شنام پخش گوئی بھی ایک برائی ہے مگر یہ دونوں عام ہے۔ ہمارےTV چیلنز فحش گوئی کے کام ہرطرف عام ہے اور موسیقی کے بغیر ہمارے نوجوانوں کو نہیں آتی، پڑھائی کرنے میں مزہ ہی نہیں آتا ہے یا در کھے! یہ تمام لغویات انسان کے جذبات کوا ابھراتے ہیں اس سے حوس پرستی میں پڑھنے کے امکانات اسلئے اسلام نے موسیقی اور لغویات کو حرام قرار دیا ہے۔ (جاری ہے)