Youm e Watani Saudi Arab, Tareekhi Pas Manzar Aur Aalmi Eteraf (6)
یوم وطنی سعودی عرب، تاریخی پس منظر اور عالمی اعتراف (6)

چمکتی تاریخ کے آئینے میں قومیں اپنا چہرہ پہچانتی ہیں
وہی ماضی کا نور ہے جو آنے والی نسلوں کو راستہ دکھاتا ہے
یوم وطنی سعودی عرب ہر سال 23 ستمبر کو منایا جاتا ہے، یہ دن اس وقت کا نشان ہے جب 1932 میں شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود نے نجد، حجاز اور دیگر علاقوں کو یکجا کرکے باضابطہ طور پر مملکت سعودی عرب کا اعلان کیا۔ یہ اعلان صدیوں پر محیط اس جدوجہد کا نقطہ کمال تھا، جس میں صبر، عزم اور قربانی شامل تھی، 1902 میں ریاض کی بازیابی نے ایک نئے عہد کی بنیاد ڈالی، پھر مکہ و مدینہ کی شمولیت کے بعد ایک وحدت ابھری اور بالآخر ایک ایسی ریاست وجود میں آئی، جو اسلامی اقدار اور قومی وحدت کی بنیاد پر کھڑی ہوئی۔ یہ دن محض ایک تاریخ نہیں بلکہ اتحاد، وقار اور شعور کی علامت ہے۔
قیام کے بعد سعودی حکمرانوں نے تعلیم، عدل اور معیشت کے شعبوں کو مضبوط بنایا، تیل کی دریافت نے ملک کو دنیا کی معیشت میں مرکزی حیثیت دی، لیکن اصل طاقت اس اتحاد اور اجتماعی سوچ میں تھی، جس نے مختلف قبائل کو ایک پرچم تلے جمع کر دیا، آج جب ہم یوم وطن دیکھتے ہیں، تو ہمیں صرف ماضی کا منظر نہیں بلکہ حال اور مستقبل کا عہد بھی دکھائی دیتا ہے، سعودی قیادت نے ترقی کے راستے پر جو اقدامات اٹھائے ہیں، وہ وژن 2030 کی صورت میں ظاہر ہیں۔ جس کا مقصد معیشت کو متنوع بنانا اور نوجوان نسل کو دنیا کی قیادت کے لیے تیار کرنا ہے۔
اسلام آباد میں سعودی سفارت خانے میں ہر سال کی طرح اس برس بھی یوم وطن کی تقریب منعقد ہوئی، جس میں پاکستانی حکام، سفارتکاروں اور اہم شخصیات نے شرکت کی، مقررین نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو اجاگر کیا اور اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے رشتے محض سفارتی نہیں، بلکہ ایمان اور عقیدت کے رشتے ہیں صدر اور وزیر اعظم نے اپنے پیغامات میں سعودی قیادت کو مبارکباد دی اور اس تعلق کو مزید گہرا کرنے کے عزم کا اظہار کیا، اس تقریب کو پاکستانی اخبارات اور ذرائع ابلاغ نے نمایاں طور پر کوریج دی، جس سے اس بات کی جھلک ملی کہ عوامی سطح پر بھی یہ تعلقات کس قدر مضبوط ہیں۔
سعودی عرب میں یوم وطن کی تقریبات نہایت شان و شوکت سے منائی گئیں، شاہی محل میں سرکاری تقریب کے علاوہ عوامی اجتماعات، ثقافتی میلوں اور تاریخی نمائشوں کا اہتمام ہوا، شہروں کو سبز اور سفید روشنیوں سے مزین کیا گیا اور آتشبازی کے ذریعے خوشی کا اظہار کیا گیا۔ عالمی سطح پر بھی اس دن کو نمایاں اہمیت دی گئی۔ کئی ممالک کے سربراہان نے شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان کو تہنیتی پیغامات بھیجے، ان میں امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید، قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد اور جی سی سی کے سیکرٹری جنرل شامل تھے یہ پیغامات دراصل اس بات کا اعتراف تھے، کہ سعودی عرب خطے اور امت مسلمہ میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے اور اس کی قیادت کو وسیع سطح پر احترام حاصل ہے
یہ تاریخی اور حالیہ مناظر ہمیں ایک گہرا سبق دیتے ہیں، کہ قومیں اتحاد، قربانی اور قیادت کی بدولت عروج پاتی ہیں، سعودی عرب کی تاریخ ہمیں یہ پیغام دیتی ہے، کہ ایک قوم جب اپنے ماضی سے جڑی رہتی ہے، تو وہ حال میں طاقتور اور مستقبل میں روشن ہوتی ہے۔ یوم وطن ہمیں یاد دلاتا ہے، کہ یہ ملک اسلامی روایات کا امین اور امت مسلمہ کی امیدوں کا مرکز بھی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے، کہ بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے۔ (الرعد 11)
یہی آیت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ترقی کا راستہ محنت، اتحاد اور ایمان کے بغیر ممکن نہیں۔
یوم الوطنی دراصل ماضی کی قربانیوں کی یاد اور مستقبل کی امیدوں کا پیغام ہے۔ یہ دن ہمیں سکھاتا ہے کہ محض آزادی منانا کافی نہیں، بلکہ اپنی اقدار اور ذمہ داریوں کو یاد رکھنا بھی لازم ہے۔ سعودی عرب کی سرزمین امت مسلمہ کے دل کی دھڑکن ہے اور اس کی مضبوطی اور استحکام درحقیقت پوری امت کے استحکام کی ضمانت ہے۔ یہی وہ پیغام ہے جو 23 ستمبر کو دنیا بھر کے دلوں میں تازہ ہوتا ہے۔

