Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Noor Hussain Afzal
  4. UAE Mein 30 November Ka Tareekhi Pas Manzar

UAE Mein 30 November Ka Tareekhi Pas Manzar

یو اے ای میں 30 نومبر کا تاریخی پس منظر

ہر قوم کی تاریخ میں کچھ ایسے دن آتے ہیں، جو وقت کے صفحات پر سنہری حروف سے رقم ہو جاتے ہیں۔ یہ دن محض تقویم کی ایک تاریخ نہیں رہتے، بلکہ ان میں قربانی، عزم اور وفا کی پوری داستان سمٹی ہوتی ہے۔ متحدہ عرب امارات کے لیے 30 نومبر ایسا ہی ایک دن ہے جسے "یومِ شہید" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ دن اس سرزمین کے ان سپوتوں کے لیے وقف ہے جنہوں نے اپنے وطن کی عزت، وقار اور امن کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔ ان میں فوجی بھی شامل ہیں، پولیس اور سیکیورٹی کے اہلکار بھی اور وہ بھی جنہوں نے خدمتِ خلق کے مختلف میدانوں میں اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے شہادت کا رتبہ پایا۔

اس دن کی اصل بنیاد 30 نومبر 1971 کے ایک تاریخی واقعے سے جڑی ہے۔ عرب خلیج کے نیلگوں پانیوں میں واقع ایک چھوٹا سا جزیرہ، طنب الکبریٰ، جہاں ایک بہادر سپاہی سالم سہیل خمیس اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ وطن کی سرحدوں کی حفاظت پر مامور تھا۔ اس دن ایران کی افواج نے اس جزیرے پر قبضے کی کوشش کی۔ ہتھیار کم تھے، وسائل محدود، مگر جذبہ ایمان اور وطن سے محبت نے سالم سہیل خمیس کو ایک ایسا عزم دیا کہ وہ آخری دم تک لڑتے رہے اور جامِ شہادت نوش کر گئے۔ یوں وہ متحدہ عرب امارات کے پہلے شہید قرار پائے۔ ان کی قربانی ایک ایسا سنگِ میل بن گئی جس نے آنے والی نسلوں کو وفا اور قربانی کا مفہوم سمجھا دیا۔

اس واقعے کے بعد سے لے کر کئی دہائیوں تک مختلف محاذوں پر وطن کے لیے جان دینے والے سپوتوں کو انفرادی سطح پر یاد کیا جاتا رہا۔ فوجی چھاؤنیوں میں خاموش دعائیں ہوتیں، گھروں میں تصویروں کے سامنے شمعیں جلائی جاتیں اور دلوں میں ان کی یاد کے چراغ روشن رہتے۔ مگر ایک دن ایسا بھی آنا تھا جب یہ سب یادیں ایک قومی دن میں یکجا ہوتیں۔ یہ لمحہ آیا 19 اگست 2015 کو، جب یو اے ای کے مرحوم صدرِ مملکت شیخ خلیفہ بن زاید النہیان نے باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ ہر سال 30 نومبر کو یومِ شہید منایا جائے گا۔ یہ اعلان محض ایک سرکاری فیصلہ نہیں تھا، بلکہ ایک قومی عہد تھا کہ ہم اپنے شہداء کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔

پہلا یومِ الشہید 30 نومبر 2015 کو پورے وقار اور سنجیدگی کے ساتھ منایا گیا۔ یوم الشہید کی شروعات اس طرح ہوتی ہیں، کہ آغاز قومی پرچم بلند کرنے سے ہوتا ہے، جبکہ دوپہر کے وقت پرچم نصف سرنگوں کر دیا جاتا ہے، تاکہ پورا ملک اپنے ہیروز کو یاد کرتے ہوئے سر جھکا سکے۔ ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جاتی ہے، جس میں ہر دل سے یہ دعا نکلتی ہے، کہ اللہ تعالیٰ شہداء کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ ملک کی مساجد میں خصوصی خطبات اور دعاؤں کا اہتمام کیا جاتا ہے اور شہداء کے اہل خانہ کو عزت و احترام کے ساتھ خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے۔

اس دن کی یاد کو مزید پائیدار بنانے کے لیے 2016 میں ابوظہبی میں ایک عظیم یادگار تعمیر کی گئی جسے "واحة الکرامة" یعنی وقار کی وادی کہا جاتا ہے۔ اس یادگار میں 31 بڑے پینل نصب ہیں، جن پر شہداء کے نام کندہ ہیں۔ یہاں آکر محسوس ہوتا ہے، کہ ہر نام ایک کہانی ہے، ہر نام ایک قربانی کی گواہی دیتا ہے۔ یہ جگہ صرف ایک یادگار نہیں، بلکہ ایک تعلیمی درسگاہ بھی ہے، جہاں نئی نسل کو بتایا جاتا ہے، کہ آزادی اور امن کی قیمت کیا ہے۔

یمن کے محاذ پر اماراتی افواج کی قربانیاں 2017 اور 2018 میں یومِ شہید کی تقریبات کو مزید گہرا کر گئیں۔ ان تقریبات میں شہداء کے خاندانوں کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا اور اسکولوں، جامعات میں تقاریر اور نمائشوں کا اہتمام ہوا، تاکہ نوجوان جان سکیں کہ ایک قوم کی عزت اور آزادی کیسے محفوظ رکھی جاتی ہے۔ 2019 میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ شہداء کی قربانیوں کو تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے۔ یہ محض ایک تعلیمی اقدام نہیں تھا، بلکہ ایک نظریاتی عزم تھا کہ نئی نسل اپنے ہیروز کو صرف کاغذی حوالوں میں نہیں بلکہ دل کی کتاب میں محفوظ رکھے۔

2020 میں جب دنیا کرونا وبا کی لپیٹ میں آئی، تو یومِ شہید کا دائرہ کار بڑھا دیا گیا۔ اس میں وہ میڈیکل اسٹاف بھی شامل ہوا، جو خدمتِ خلق اور انسانی جانیں بچانے کی جدوجہد میں اپنی جان کی بازی ہار گئے۔ اس طرح یہ دن صرف جنگی شہداء کا نہیں رہا بلکہ ہر اس فرد کا دن بن گیا، جو انسانیت کے لیے قربانی دیتا ہے۔

2021 متحدہ عرب امارات کی تاریخ میں ایک اہم سال تھا، جب ملک نے آزادی کے پچاس سال مکمل کیے۔ اس موقع پر یومِ شہید کی تقریبات غیر معمولی شان سے منائی گئیں۔ عمارتوں پر روشنیوں کے جال بچھا دیے گئے اور "واحة الکرامة" پر عظیم الشان تقریب کا انعقاد ہوا۔ 2022 میں شیخ خلیفہ بن زاید النہیان کے انتقال کے بعد پہلی مرتبہ یہ دن شیخ محمد بن زاید النہیان کی قیادت میں منایا گیا۔ پیغام وہی تھا، وفا کا عہد، قربانی کا احترام اور شہداء کے خاندانوں کی تکریم۔

2023 میں مرکزی تقریب کے دوران شہداء کے اہل خانہ کو سرکاری تمغے اور اعزازی اسناد دی گئیں۔ یہ اعزاز ان خاندانوں کے لیے محض ایک رسمی اقدام نہیں، بلکہ ایک یقین دہانی تھی، کہ ان کی قربانی کبھی فراموش نہیں کی جائے گی۔ 2024 میں یومِ شہید کی تقریبات میں ماحول دوست اقدامات شامل کیے گئے۔ شمسی توانائی سے چلنے والی روشنیوں، ڈیجیٹل بورڈز اور کاغذ کے کم سے کم استعمال سے یہ پیغام دیا گیا، کہ ہم اپنے شہداء کو یاد کرتے ہوئے اپنے ماحول کا بھی خیال رکھیں گے۔ اسی سال ایک خصوصی ڈاک ٹکٹ سیریز بھی جاری کی گئی، جس پر شہداء کی یاد کو نقش کیا گیا۔

2025 میں جب یومِ شہید کو مناتے ہوئے، اس کے دس سال مکمل ہوئے تو "عشرہ وفا" کا اعلان کیا گیا۔ اس عشرے کے دوران سال بھر میں شہداء سے متعلق نمائشیں، دستاویزی فلمیں اور نوجوانوں کے لیے خصوصی اسکالرشپ پروگرامز شروع کیے گئے۔ اس کا مقصد یہ تھا، کہ نئی نسل شہداء کی قربانیوں کو صرف تاریخ کے اوراق میں نہ دیکھے بلکہ انہیں اپنے کردار اور عمل کا حصہ بنائے۔

یومِ شہید محض ایک دن نہیں، بلکہ ایک مسلسل یاد دہانی ہے، کہ وطن کا قرض کبھی ادا نہیں ہو سکتا۔ یہ قرض صرف وفا، قربانی اور دیانت سے اگلی نسلوں تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ ہر سال جب 30 نومبر کی صبح طلوع ہوتی ہے، سورج کی پہلی کرن شہداء کے مزاروں کو چھوتی ہے اور ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ جن قوموں کے بیٹے اپنے وطن کے لیے جان دیتے ہیں، وہ قومیں کبھی مٹتی نہیں۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan