UAE Kyun Khwabon Ki Tabeer Ki Sarzameen Hai
یو اے ای کیوں خوابوں کی تعبیر کی سرزمین ہے

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
علامہ محمد اقبال
دنیا کی تاریخ میں بہت کم ممالک ایسے ہیں، جنہوں نے چند دہائیوں میں اپنی تقدیر بدل کر رکھ دی ہو۔ عرب کے ریگزاروں میں بسی ہوئی، یہ چند ممالک آج پورے عالم کے لیے جدوجہد کا مرکز بنے ہوئے ہیں، متحدہ عرب امارات وہ ملک ہے جسے بجا طور پر خوابوں کی تعبیر کی سرزمین کہا جا سکتا ہے۔ اس کے وجود کی کہانی محض برج خلیفہ یا دبئی مال جیسی عمارتوں میں نہیں، بلکہ ان ٹھوس اعداد و شمار میں پنہاں ہے، جو بتاتے ہیں کہ خواب یہاں حقیقت کا لبادہ کیسے اوڑھتے ہیں۔
2024 کے اعداد و شمار کے مطابق یو اے ای کی معیشت کا حجم تقریباً 1.776 ٹریلین درہم، یعنی قریباً 483 ارب امریکی ڈالر تک پہنچ گیا۔ یہ اضافہ صرف تیل کی آمدن کا مرہونِ منت نہیں، بلکہ غیر تیل معیشت نے قومی پیداوار میں 75 فیصد سے زیادہ حصہ ڈالا۔ گویا وہ ملک جس کی پہچان کبھی تیل کے کنویں تھے، اب تجارت، سرمایہ کاری، بینکنگ، رئیل اسٹیٹ، لاجسٹکس اور ٹیکنالوجی کا مرکز بن چکا ہے۔ یہ تبدیلی محض خواب نہیں، بلکہ اس حقیقت کی دلیل ہے، کہ قیادت نے مستقبل کو صرف الفاظ میں نہیں، بلکہ عملی منصوبہ بندی کے ذریعے تعمیر کیا۔
اب اگر سیاحت کی طرف دیکھیں، تو حیرت کے در کھلتے ہیں۔ صرف 2023 میں سیاحت سے ہونے والی آمدن 220 ارب درہم سے زائد رہی، جو مجموعی قومی پیداوار کا تقریباً بارہ فیصد ہے۔ اس شعبے نے آٹھ لاکھ سے زیادہ افراد کو براہِ راست روزگار دیا۔ اندازہ لگائیے کہ وہ سرزمین جو چند دہائیاں قبل اجنبیوں کے لیے صرف صحرا تھی، آج دنیا کے بڑے سیاحتی مراکز میں شمار ہوتی ہے۔ دبئی ایئرپورٹ پر ہر سال کتنے مسافر اترتے ہیں، اس پر میرا ایک کالم جس کا عنوان " تاریخ دبئی ایئرپورٹ: بے مثال ترقی کا استعارہ " انتہائی معلوماتی ہے اور اب پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ 2025 میں غیر ملکی سیاحوں کے اخراجات 228 ارب درہم سے تجاوز کر جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عالمی سیاحتی نقشے پر یو اے ای اپنی جگہ مستقل طور پر بنا چکا ہے۔
یہ ترقی اور خوش حالی اس وقت تک ممکن نہ تھی، جب تک امن و امان کو بنیاد نہ بنایا جاتا۔ ایک خواب کی تعبیر اسی وقت ممکن ہے، جب انسان خود کو محفوظ سمجھے۔ 2023 میں جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق یو اے ای میں سنگین جرائم کی شرح ہر ایک لاکھ افراد پر صرف چوبیس اعشاریہ چھ ہے، جو دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ملکوں سے بھی کم ہے۔ یہ اعداد و شمار اس حقیقت کو ثابت کرتے ہیں، کہ یہ ملک اپنے شہریوں اور تارکین دونوں کے لیے اعتماد اور تحفظ کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کار کھلے دل سے یہاں آتے ہیں اور مزدور طبقہ بھی سکون سے اپنا روزگار کما پاتا ہے۔
ایک اور پہلو جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، وہ انسانی اجتماعیت ہے۔ آج یو اے ای کی آبادی میں اماراتیوں کا حصہ صرف بارہ فیصد ہے، جبکہ اٹھاسی فیصد باشندے مختلف ممالک سے آ کر یہاں بستے ہیں۔ یہ تناسب دنیا میں سب سے منفرد ہے۔ ایشیا، یورپ، افریقہ اور امریکہ کے لاکھوں افراد یہاں روزگار پاتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ترقی کا سفر طے کرتے ہیں۔ یہ تنوع خود اس بات کا ثبوت ہے، کہ خواب کسی ایک قوم کا نہیں بلکہ ہر اس انسان کا ہے جو محنت پر یقین رکھتا ہے۔
ان سب کے ساتھ اگر آپ روزمرہ زندگی کی سہولتوں کو دیکھیں تو حیرت اور بھی بڑھتی ہے۔ جدید میٹرو، وسیع شاہراہیں، جدید ترین ایئرپورٹس، صحت کی عالمی معیار کی سہولتیں، اعلیٰ معیار کی رہائش اور تعلیمی ادارے یہ سب وہ عناصر ہیں، جو دنیا کے کسی بھی خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے بنیادی ستون ہیں۔
یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے یو اے ای کی قیادت نے اپنے عوام اور دنیا کے محنت کشوں سے ایک غیر علانیہ معاہدہ کیا ہے، کہ تم خواب دیکھو، ہم انہیں حقیقت کا روپ دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ایک مزدور بھی جب دبئی، شارجہ یا ابوظہبی کی گلیوں میں کام کرتا ہے، تو اس کے دل میں یہ یقین جاگزیں ہوتا ہے کہ اس کی محنت رنگ لائے گی۔ ایک سرمایہ کار بھی جب کسی فری زون میں قدم رکھتا ہے، تو اس کے خواب حقیقت بننے لگتے ہیں اور ایک سیاح بھی جب برج خلیفہ کی بلندی سے روشنیوں کا سمندر دیکھتا ہے، تو دل ہی دل میں کہتا ہے۔
"یہ وہ سرزمین ہے جہاں خوابوں کو تعبیر مل سکتی ہے"۔
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو "فراز" یہ خیال اچھا ہے
احمد فراز

