Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Noor Hussain Afzal
  4. Taleem Ki Jiddat Aur Islami Madaris Ka Taqabli Jaiza

Taleem Ki Jiddat Aur Islami Madaris Ka Taqabli Jaiza

تعلیم کی جدت اور اسلامی مدارس کا تقابلی جائزہ

دنیا کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے، کہ کسی بھی قوم کی بقا اور ترقی کا راز اس کے تعلیمی نظام میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے جب غلامی کے اندھیروں میں آنکھ کھولی، تو ایمان، تہذیب اور علم کے چراغ بجھنے کے قریب تھے۔ ایسے وقت میں اللہ نے ایک مردِ درویش کو پیدا کیا، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی جنہوں نے 15 محرم الحرام 1283ھ مطابق 30 مئی 1866ء کو ہندوستان کے ایک چھوٹے قصبے، دیوبند میں ایک مدرسے کی بنیاد رکھی۔ روایت ہے، کہ آپ نے خواب میں نبی کریم ﷺ کی زیارت کی، حضور ﷺ نے زمین پر لکیر کھینچ کر فرمایا، کہ یہاں ایک مدرسہ قائم ہوگا۔ یہ خواب محض ایک بشارت نہ تھی، بلکہ امت کی علمی و روحانی بقا کی بنیاد تھی۔ چنانچہ دارالعلوم دیوبند وجود میں آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ادارہ عالم اسلام کا مرکز علم و عرفان بن گیا۔

پاکستان کے قیام کے بعد اہل سنت والجماعت کے مدارس نے وہی مشن آگے بڑھایا اور دین و علم کے چراغ روشن کیے۔ یہ مدارس قرآن و حدیث کی حفاظت، فقہ اسلامی کی تدریس اور امت کی اخلاقی تربیت میں ناقابل فراموش خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان اداروں نے تحریکِ آزادی میں بھی اہم کردار ادا کیا اور قیامِ پاکستان کے بعد ملک کی فکری و نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا۔

اہل سنت والجماعت کے مدارس نے اپنی علمی میراث کے ساتھ ساتھ معاشرتی خدمت کا فریضہ بھی سرانجام دیا۔ لاکھوں طلبہ کو نہ صرف دینی تعلیم دی، بلکہ ان کے قیام و طعام کا انتظام بھی کیا۔ اگر آج دنیا کے پانچ براعظموں میں مساجد آباد ہیں، اسلامک مراکز قائم ہیں اور دینی تحریکیں جاری ہیں، تو ان میں ان مدارس کے فاضلین کا سب سے بڑا کردار ہے۔ امریکہ، برطانیہ، جنوبی افریقہ، خلیج اور یورپ میں ہزاروں ادارے انہی فاضلین کی محنت کا ثمر ہیں۔

کراچی میں 1951ء میں قائم ہونے والا دارالعلوم کراچی اپنی علمی خدمات کے اعتبار سے ایک مینارہ نور ہے۔ حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی کے خواب کی تعبیر آج حضرت مولانا محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کی صورت میں دنیا دیکھ رہی ہے۔ جامعہ علوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن 1954ء میں وجود میں آیا، جہاں علامہ یوسف بنوری اور بعد میں حضرت مولانا سلیم اللہ خان نے علمِ حدیث کو نئی روح بخشی۔ جامعہ فاروقیہ کراچی بھی حضرت مولانا سلیم اللہ خان کا قائم کردہ ادارہ ہے جس نے بین الاقوامی سطح پر ہزاروں علماء تیار کیے۔

مفتی عبدالرحیم صاحب، جنہیں جامعۃ الرشید کے پرنسپل اور الغزالی یونیورسٹی کے چانسلر کا عہدہ حاصل ہے، نے اس جرات علمی کا مظاہرہ کیا، کہ وہ مدارس میں جدید علوم کو داخل کریں۔ آپ نے کورسز متعارف کروائے ہیں، جیسے تخصص فی الحدیث، تخصص فی الافتاء، تخصص فی فقہ المعاملات المالیہ و العلوم الاداریہ، تخصص فی الفقہ الحلال، انگریزی زبان کورس اور کلیۃ الفنون (میڈیا و جرنلزم) وغیرہ، تاکہ فاضلین صرف دینی حلقوں تک محدود نہ رہ کر جدید دنیا کے تقاضوں کا حصہ بن سکیں۔ جامعۃ الرشید نے "Foundations Program" بھی شروع کیا ہے جو ایک سمسٹر کا کورس ہے اور اس میں طلبہ کو انگریزی، ریاضی اور کمپیوٹر سائنس کی تیاری کروائی جاتی ہے۔

جامعہ اشرفیہ لاہور، جس کی بنیاد 1947ء میں رکھی گئی، نے برصغیر کے علمی افق پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ اسی طرح ملتان میں جامعہ خیر المدارس، جسے حضرت خیر محمد جالندھریؒ نے قائم کیا، جنوبی پنجاب میں علومِ اسلامیہ کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ بنوں کا جامعہ عربیہ، گوجرانوالہ کا جامعہ نصرت العلوم اور فیصل آباد کا جامعہ رشیدیہ بھی انہی سلسلوں کا تسلسل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جامعہ زکریا کندھ کوٹ اور جامعہ مدنیہ بہاولپور جیسے ادارے بھی ہزاروں طلبہ کو فیض دے رہے ہیں۔ ان سب اداروں کے شیخ الحدیث اور محدثین نے بخاری و مسلم کی شرح سے لے کر فقہ و تفسیر تک خدمات انجام دیں جنہیں تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔

یہ مدارس دنیا کے علمی نقشے پر اپنا الگ مقام رکھتے ہیں۔ یہاں طلبہ کو نہ صرف علوم قرآن و حدیث پڑھائے جاتے ہیں، بلکہ ان کی اخلاقی تربیت پر بھی زور دیا جاتا ہے۔ عصری یونیورسٹیاں جہاں بھاری فیسوں کی وجہ سے متوسط طبقے کے لیے مشکل ہیں، وہاں مدارس کم وسائل کے باوجود لاکھوں طلبہ کو بلا معاوضہ تعلیم فراہم کرتے ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے انقلاب سے گزر رہی ہے۔ ایسے میں مدارس کو چاہیے، کہ اپنی شناخت برقرار رکھتے ہوئے عصری علوم جیسے انگریزی، کمپیوٹر سائنس اور سوشل اسٹڈیز کو اعلیٰ سطح پر نصاب کا حصہ بنائیں۔ یوں یہ ادارے اپنے فاضلین کو عالمی سطح پر قائدانہ کردار ادا کرنے کے قابل بنا سکتے ہیں۔

مغرب نے مدارس کو شدت پسندی سے جوڑنے کی کوشش کی، مگر تاریخ گواہ ہے کہ ان اداروں نے ہمیشہ امن، محبت، صبر اور رواداری کی تعلیم دی ہے۔ یہی مدارس تھے، جنہوں نے تحریکِ آزادی میں قربانیاں دیں، یہی مدارس ہیں جو آج پاکستان اور دنیا بھر میں اسلام کی حقیقی آواز بنے ہوئے ہیں۔

اسلامی مدارس امت کے ایمان، اخلاق اور علمی ورثے کی ضمانت ہیں۔ ان کا قیام محض تعلیمی تحریک نہیں، بلکہ ایک روحانی مشن ہے۔ پاکستان کے بڑے ادارے دارالعلوم کراچی، جامعہ علوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن، جامعہ فاروقیہ کراچی، جامعہ اشرفیہ لاہور، جامعہ خیر المدارس ملتان، جامعہ عربیہ بنوں، جامعہ نصرت العلوم گوجرانوالہ، جامعہ رشیدیہ فیصل آباد اور جامعہ مدنیہ بہاولپور سب اسی فیضان کے امین ہیں۔ ان کے فاضلین دنیا کے کونے کونے میں اسلام کی روشنی پھیلا رہے ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے، کہ ہم ان خدمات کا اعتراف کریں اور ان اداروں کے مستقبل کو مزید روشن بنانے کے لیے اجتماعی قدم اٹھائیں۔

چراغِ اہلِ سنت سے جو روشنی اٹھی ہے
وہ آج پاکستان کے مدارس میں بھی جگمگا رہی ہے

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan