Safar Mein Do Namazon Ko Ikathe Parhne Ka Hukam
سفر میں دو نمازوں کو اکٹھی پڑھنے کا حکم

ایک روز بیٹے محمد ریان نور ان کی چھوٹی بہن فاطمہ نور اور میری زوجہ نے مجھے کہا کہ رات ہم ایک وی لوگ دیکھ رہے تھے جس میں دو سفر کے دوران دو نمازیں اکٹھی کرکے پڑھی گئی انہوں نے پوچھا کہ ہم تو عموماََ سفر پر جاتے رہتے ہیں لیکن آپ نے کبھی ایسا نہیں کیا کیا ایسا کرنا درست ہے تو ان کے سوال پر زیر نظر تحریر آپ احباب کی خدمت میں حاضر ہے امید ہے انشاءاللہ اس سے قارئین مستفیض ہوں گے۔
جب میں نے گفتگو شروع کی، تو ہمہ تن میری طرف متوجہ ہوئے، عرض یہ ہے کہ قرآنِ کریم کی آیاتِ مبارکہ اور احادیثِ شریفہ سے قطعی طور پر یہ ثابت ہوتا ہے، کہ نمازوں کو ان کے وقتِ مقررہ پر ادا کرنا ضروری ہے اور ان میں تقدیم و تاخیر جائز نہیں ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے:
ترجمہ: بے شک نماز مسلمانوں پروقتِ مقررہ کے ساتھ فرض ہے۔ (سورہ النساء: 103)
نیز شریعت میں ہر نماز کی ابتدا کا وقت بھی مقرر ہے اور اس کے ختم ہونے کا بھی وقت مقرر ہے، چاہے وہ فجر ہو، یا ظہر ہو، یا عصر ہو، یا مغرب ہو، یا عشاء ہو، یا جمعہ ہو۔ اس لیے احناف کے نزدیک دو فرض نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرنا نہ مقیم کے لیے جائز ہے اور نہ ہی مسافر کے لیے۔
البتہ حج کے موقع پر مزدلفہ میں عشاء کے وقت میں مغرب وعشاء اور عرفہ میں ظہر کے وقت میں ظہر اور عصر کی نماز جمع کرنا آپ ﷺ اور صحابہ کرامؓ سے ثابت ہے۔ اس کے علاوہ کسی موقع پر نماز کو وقت داخل ہونے سے پہلے ادا کرنا یا بغیر عذر کے وقت گزرنے کے بعد ادا کرنا ثابت نہیں ہے۔
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے:
ترجمہ: جس آدمی نے بغیر عذر کے دو نمازوں کو (ایک ہی وقت میں ) جمع کیا (پڑھا) وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر پہنچ چکا۔ (سنن الترمذي، باب ماجاء في الجمع بین الصلاتین في الحضر: 188)
اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے دو نمازوں کو ایک ہی وقت میں پڑھنے کو گناہِ کبیرہ قرار دیا ہے، ظاہر ہے کہ جو عمل گناہِ کبیرہ ہو وہ کیسے جائز ہوسکتا ہے۔
البتہ بعض احادیث سے دو نمازوں کے جمع کرنے کا بظاہر معلوم ہوتا ہے، جن کی بنا پر شوافع نے مسافر کے لیے جمع بین الصلاتین کی اجازت دی ہے، احناف نے دیگر روایات کی بناپر ان احادیث کے دو جواب دیے ہیں۔
اب آپ وہ دو جوابات بھی سن لیں، ان کی دلچسپی اور بڑی اور مزید یکسوئی کے ساتھ سننے لگے۔
(1) ایک جواب یہ ہے، کہ جن روایات میں صراحتاً وقت سے پہلے یا وقت کے بعد نماز ادا کرنے کا ذکر ہے، وہ قرآنِ مجید اور ان صحیح احادیث سے متعارض ہیں، جن میں نمازوں کے اوقات مقرر کیے گئے ہیں، کیوں کہ قرآنِ مجید میں نماز کو اس کے وقتِ مقررہ پر ادا کرنے کا حکم دیا گیاہے اور اس حدیث میں وقت سے پہلے یا وقت کے بعد دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا ذکر ہے اور ظاہر ہے کہ قرآن اور حدیث میں ٹکراؤ ہو تو قرآن کو ترجیح دی جاتی ہے، نیز دیگر احادیث جو نمازوں کو اوقات کے علاوہ ادا کرنے کی ممانعت پر دلالت کرتی ہیں، ان سے بھی ٹکراو کی صورت میں ان کثیر وصحیح روایات کو ترجیح دی جائے گی، اس لیے ظہر اور عصر کی نماز کا جو وقت مقرر ہے اور مغرب وعشاء کی نماز کا جو وقت مقرر ہے، اسی پر عمل کیاجائے گا اور نمازیں اسی وقت میں ادا کرنا ضروری ہوگا اور دو نمازوں کو جمع کرنے والی روایات کو ترک کردیا جائے گا۔
(2) دوسرا جواب یہ ہے، کہ ان روایات میں جمع کرنے سے صورتاً جمع کرنا مراد ہے، حقیقتاً نہیں۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ ظہر کی نماز اتنی دیر سے پڑھی جائے، کہ اس کا وقت ختم ہونے لگے، جیسے ہی ظہر کی نماز سے فراغت ہو، کچھ دیر انتظار کیا جائے، پھر جب عصر کا وقت شروع ہو جائے، تو عصر بھی پڑھ لی جائے، اسی طرح مغرب اور عشاء میں کیا جائے، اس صورت میں ظہر اپنے وقت میں پڑھی جائے گی اور عصر اپنے وقت میں پڑھی جائےگی۔ لیکن بظاہر ایسا محسوس ہوگا، کہ دونوں ایک ہی ساتھ پڑھی گئیں۔ آپ ﷺ نے دو نمازوں کو اس طرح جمع فرمایا، تو راویوں نے کہہ دیا کہ آپ نے دو نمازوں کو جمع فرمایا ہے، جب کہ اس کی حقیقت کچھ اور ہی تھی، جیساکہ تفصیلی روایات میں اس کی وضاحت ملتی ہے۔
چنانچہ عبد اللہ ابن عمرؓ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ کو سفر پر جانے میں عجلت ہوتی تو مغرب کی نماز کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ مغرب اور عشاء کو جمع فرماتے۔ (الصحیح لمسلم، باب جواز الجمع بين الصلاتين في السفر: 1659)
حضرت انسؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ جب سورج کے زائل ہونے سے قبل سفر فرماتے، تو ظہر کو مؤخر فرماتے عصر تک، پھر (سواری سے) اترتے اور دونوں نمازوں کو جمع فرماتے۔ (الصحیح لمسلم، باب جواز الجمع بين الصلاتين في السفر، 1659)
ان روایات سے پتا چلتا ہے، کہ آپ کا دو نمازوں کو جمع فرمانا صورتاً تھا، حقیقتاً نہیں، جس کی وضاحت ماقبل میں کی جاچکی ہے، چناں چہ اگر ہم ان روایات کو جمع صوری پر محمول کرتے ہیں، تو تمام آیات اور روایات میں کوئی تعارض نہیں ہوتا ہے اور اگر حقیقت پر محمول کرتے ہیں، تو پھر آیاتِ مبارکہ اور کثیر احادیثِ صحیحہ مبارکہ کو ترک کرنا لازم آتا ہے، اس لیے اس کو جمع صوری پر محمول کیا جائے گا۔ تاکہ قرآن اور حدیث پر مکمل طور پر عمل ہو اور ان میں باہم تضاد اور ٹکراؤ نہ ہو۔
میں نے اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے کہا: حاصل یہ ہے کہ ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا کرنا ضروری ہے، احناف کے نزدیک سفر میں بھی دو نمازیں ایک وقت میں جمع کرنا جائز نہیں ہے، ہاں ضرورت کے موقع پر صورتاً دو نمازوں کو جمع کیا جاسکتا ہے، مثلاً ظہر کی نماز کو مؤخر کرکے آخری وقت میں پڑھ لیا جائے اور عصر کو ابتدائی وقت میں، اسی طرح مغرب کو مؤخر کرکے آخری وقت میں ادا کرلیا جائے اور عشاء کو اول وقت میں، یہ صورۃ جمع ہے، سفر میں اس کی گنجائش ہے۔
محمد ریان نور اور ان کی والدہ محترمہ نے کہا، کہ بہت شکریہ آج ہمارے علم میں بہت اچھا اضافہ ہوا ہے، اگر آپ ان روایات کو حوالہ جات کے ساتھ کالم کی صورت میں تحریر کریں، تو اس سے باقی احباب بھی اس سے مستفیض ہو سکیں گے۔ اس لیے کہ سفر ہر شخص کی ضرورت ہے، اللہ تعالی ہمیں صحیح معنوں میں دین سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

