Pakistan Aur Saudi Arab, Mustaqbil Ke Imkanat Aur Khittay Mein Istehkam (4)
پاکستان اور سعودی عرب، مستقبل کے امکانات اور خطے میں استحکام (4)

ونسٹن چرچل نے کہا تھا: "سفارتکاری میں سب سے بڑی طاقت معلومات اور حکمت ہے، جو اپنے وقت اور حالات کو سمجھتا ہے، وہ سب پر غالب رہتا ہے"۔
یہ قول آج کے تناظر میں بھی موزوں ہے، کیونکہ پاکستان اور سعودی عرب اگر مشترکہ منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھیں تو نہ صرف اپنے عوام کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے امن اور استحکام کی مثال قائم کر سکتے ہیں۔
اقتصادی شعبے میں یہ معاہدہ نئے مواقع فراہم کرتا ہے۔ جولائی 2025ء میں سعودی عرب نے پاکستان میں توانائی، انفراسٹرکچر اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے 5 ارب ڈالر کے منصوبے کا اعلان کیا۔ پاکستان کے انسانی وسائل کی مہارت سعودی ترقیاتی منصوبوں میں کارگر ثابت ہو سکتی ہے اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم 2023ء میں 4.2 ارب ڈالر تھا، جو اب بڑھنے کی توقع ہے۔ اس طرح یہ شراکت داری عوام کے لیے براہِ راست فوائد پیدا کرے گی اور خطے میں استحکام کو تقویت دے گی۔
19 ستمبر 2025ء کو پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ایک نیا معاہدہ طے پایا، جو صرف موجودہ تعلقات کو مستحکم نہیں کرتا، بلکہ آنے والے دہائیوں میں خطے میں استحکام اور ترقی کے نئے افق بھی کھولتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ 1974ء میں پہلا باقاعدہ دفاعی اور اقتصادی معاہدہ ہونے کے بعد، دونوں ممالک نے کئی مواقع پر شانہ بشانہ اقدامات کیے۔ 1991ء کے خلیجی بحران کے دوران پاکستان نے سعودی عرب کو انسانی اور تربیتی معاونت فراہم کی، جس سے افواج اور حکومتی اداروں کے درمیان اعتماد مضبوط ہوا۔
سفارتی نقطہ نظر سے دیکھا، جائے تو یہ معاہدہ خطے میں طاقت کے توازن کو نئی شکل دے رہا ہے۔ مارچ 2024ء میں پاکستان اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ نے ملاقات کی، جس میں افغانستان اور یمن کے مسائل پر مشترکہ حکمت عملی مرتب کی گئی۔ بھارت، ایران اور دیگر پڑوسی ممالک اس تعلقات کی حرکات و سکنات کو قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ چین اور روس بھی اس بات پر نظر رکھے ہوئے ہیں، کہ مشرقِ وسطیٰ میں یہ نئی شراکت داری عالمی تعلقات پر کیسے اثر ڈال سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ معاہدہ صرف دو ممالک کے لیے نہیں، بلکہ پورے خطے کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے۔
مستقبل کے امکانات کے تناظر میں سب سے بڑا چیلنج داخلی سیاست اور باہمی اعتماد کو برقرار رکھنا ہے۔ اگر پاکستان اور سعودی عرب حکمت، تدبر اور شفافیت کے ساتھ اپنی شراکت داری کو آگے بڑھائیں، تو یہ تعلقات آنے والی دہائیوں میں خطے کے لیے استحکام، ترقی اور امن کا مضبوط ستون بن سکتے ہیں۔ تاہم، اگر داخلی سیاست کی کشمکش یا غیر متوقع عوامل نے راستہ مسدود کر دیا، تو یہ معاہدہ صرف ایک کاغذی بیانیہ کے طور پر رہ جائے گا۔
یہ معاہدہ یاد دلاتا ہے، کہ تعلقات صرف دستاویزات یا رسمی بیانات تک محدود نہیں، بلکہ عملی اقدامات، باہمی اعتماد اور مستقبل کے لیے حکمت عملی کے ذریعے حقیقی اثر پیدا کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کی یہ شراکت داری خطے میں امن، ترقی اور انسانی بہبود کے لیے روشن مثال بن سکتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس روشنی کو قائم رکھ پائیں گے؟ یہی وہ تجسس ہے جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے اور یہی اس معاہدے کا اصل چیلنج بھی ہے۔

