Pakistan Aur Saudi Arab, Mazhabi Aur Saqafti Rishton Ka Sunehri Baab (5)
پاکستان اور سعودی عرب، مذہبی اور ثقافتی رشتوں کا سنہری باب (5)

دلوں کو جوڑنے والے رشتے صدیوں کے ہوتے ہیں سیاست وقت کے دھارے بدلتی ہے، مگر روحانی رشتے قائم رہتے ہیں۔ 14 اگست 1947 کو پاکستان معرضِ وجود میں آیا، تو سعودی عرب ان اولین ممالک میں شامل تھا جس نے اس نئے اسلامی ملک کو 22 ستمبر 1947 کو تسلیم کیا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے اس موقع پر شاہ عبدالعزیز آل سعود کو خطوط میں لکھا "آپ کی جانب سے تسلیم ہمارے لیے سب سے قیمتی تحفہ ہے"۔
یہ وہ لمحہ تھا جب عرب کی سرزمین اور برصغیر کی نئی مملکت ایک ایسا رشتہ قائم کر گئی جو آج تک قائم ہے، حج اور عمرہ کی سعادت نے ہر سال لاکھوں پاکستانیوں کو سعودی عرب کی سرزمین سے جوڑا اور یہ مقدس رشتہ سیاسی اتار چڑھاؤ سے بالاتر ہے۔
16 جنوری 1952 کو، جب پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم خواجہ ناظم الدین ریاض کے شاہی محل میں شاہ سعود بن عبدالعزیز سے ملے، تو انہوں نے ایک دوسرے کو اسلامی بھائی چارے کے امین کہا۔ 3 جنوری 1962 کو، حج کے دوران پاکستانی قافلے مکۃ المکرمہ پہنچے، تو سعودی حکومت نے پہلی بار ان کے لیے الگ سہولت مرکز قائم کیا، جس کی خبر 5 جنوری 1962 کے اخبارات میں نمایاں شائع ہوئی۔
6 ستمبر 1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران، سعودی قیادت نے پاکستان کے مؤقف کی کھل کر حمایت کی۔ سن 1971 کی جنگ میں بھی سعودی عرب نے پاکستان کے سیاسی موقف کا بھرپور ساتھ دیا۔ سن 1980 میں افغان جنگ کے دوران، دونوں ممالک نے مشترکہ حکمت عملی اپنائی اور پاکستان کو افغان مہاجرین کی امداد میں تعاون فراہم کیا۔ 28 مئی 1998 کے دن، جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے، سعودی عرب نے نہ صرف پاکستان کا ساتھ دیا، بلکہ تیل کی فراہمی میں خصوصی رعایت بھی فراہم کی۔
10 فروری 2018 کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے تاریخی دورہ پاکستان کے دوران، انہوں نے کہا "مجھے پاکستان میں سعودی عرب دکھائی دیتا ہے" اس دورے نے معاشی، تعلیمی اور ثقافتی شعبوں میں تعلقات کو نئی وسعت دی۔ لاکھوں پاکستانی سعودی عرب میں محنت مزدوری کے ذریعے اپنے وطن کو اربوں ڈالر کی ترسیلات بھیجتے ہیں اور دونوں ملکوں کو تہذیبی طور پر مزید قریب کر رہے ہیں۔
شاہ فیصل بن عبدالعزیز کا قول بھی اس تعلق کی عکاسی کرتا ہے "پاکستان اور سعودی عرب مذہب، تاریخ اور بھائی چارے کے رشتے سے بندھے ہیں، ہماری تقدیریں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں اور تعاون اسلامی دنیا کے استحکام کے لیے فرض ہے"۔
19 ستمبر 2025 کو، جدہ میں طے پانے والا حالیہ معاہدہ صرف اعداد و شمار کا کھیل نہیں تھا، یہ معاہدہ دراصل اس روحانی رشتے کا تسلسل ہے جو 22 ستمبر 1947 سے قائم ہے۔ اس بار بات صرف سرمایہ کاری اور دفاع کی نہیں بلکہ تعلیمی وظائف، ثقافتی وفود کے تبادلوں اور میڈیا تعاون تک پہنچی۔ نئی نسل کو بتایا گیا، کہ پاکستان اور سعودی عرب کا رشتہ محض سفارت خانوں کی فائلوں تک محدود نہیں، بلکہ عوام کے دلوں میں بستا ہے۔
قاری اگر غور کرے، تو یہ تعلق ایک کہانی کی طرح ہے، آغاز 22 ستمبر 1947 کا ایک خط، درمیان میں لاکھوں پاکستانی حجاج کی آنکھوں کے آنسو، ریاض کی گلیوں میں محنت کشوں کی پسینے سے بھیگی قمیصیں اور آج 19 ستمبر 2025 کے معاہدے کی روشنائی۔ اس کہانی کا ہر باب ایک حقیقت ہے۔ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی روشنی چاند سے بھی نظر آتی ہے، دلیل ملاحظہ کیجیے۔
سعودی عرب کی پہلی خاتون خلا نورد ریانہ برنوی (Rayyanah Barnawi) 2023 میں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (ISS) سے خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی روشنی کو خلا سے دیکھا اور اسے سوشل میڈیا پر اس طرح شیئر کیا۔ ریانہ برنوی نے لکھا "خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی روشنی خلا میں چمک رہی ہے، باقی ساری زمین اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ہے"۔
اگر پاکستان کو خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، تو یہ اس کائنات کی سب سے بڑی سعادت ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے ملنے والے اس اعزاز و اکرام کو پاکستانی حکومت اور قوم اپنے لیے تمغہ شجاعت سمجھتی ہے اور دلی دعا ہے کہ یہ اعزاز واکرام قیامت تک رہے۔
اختتام پر کہنا یہی ہے، کہ پاکستان اور سعودی عرب کا رشتہ کاغذی معاہدوں سے کہیں زیادہ ہے، یہ رشتہ ایمان کا، عقیدت کا اور اخوت کا ہے۔ اگر تاریخ کے صفحات پر کوئی سنہری باب تلاش کیا جائے، تو یہ باب وہی ہے جس کا عنوان ہے " پاکستان اور سعودی عرب: مذہبی، روحانی اور ثقافتی رشتوں کا سنہری باب۔ اللہ تعالی اسے نظر بد سے بچائے۔ امین یا رب العالمین۔۔
یہ رشتہ ہے عقیدت کا، یہ ناطہ ہے وفا کا
کہاں جدا ہو سکتے ہیں، یہ پیار ہے خدا کا

