Pakistan Aur Saudi Arab, Kharja Policy Aur Khittay Mein Kirdar (3)
پاکستان اور سعودی عرب، خارجہ پالیسی اور خطے میں کردار (3)

19 ستمبر 2025ء کو طے پانے والا پاکستان اور سعودی عرب کا معاہدہ صرف دفاع اور معیشت تک محدود نہیں ہے، اس نے خارجہ پالیسی کے نئے دریچے بھی کھول دیے ہیں۔ دنیا کی نظریں اب اس بات پر مرکوز ہیں کہ یہ دو برادر ممالک خطے اور عالمی سیاست میں کس طرح اپنا کردار متعین کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ معاہدہ صرف تعاون کا ایک صفحہ ہے یا تاریخ کا ایک نیا باب؟
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی بنیاد ہمیشہ باہمی اعتماد پر رہی ہے۔ 1979ء کے ایرانی انقلاب کے بعد جب پورے خطے میں سیاسی توازن بدل رہا تھا، تب بھی دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب تر ہو گئے۔ 1991ء کی خلیجی جنگ کے دوران پاکستان نے سعودی عرب کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر یہ ثابت کیا، کہ یہ رشتہ محض سفارتی نہیں، بلکہ حقیقی اخوت پر مبنی ہے۔ آج ایک بار پھر عالمی حالات بدل رہے ہیں، مشرقِ وسطیٰ میں نئے اتحاد بن رہے ہیں اور پرانے اتحاد بکھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں پاکستان اور سعودی عرب کا یہ معاہدہ صرف ایک اعلان نہیں، بلکہ خطے میں امن و استحکام کا پیغام ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضاً (بخاری، کتاب الإيمان، حدیث نمبر 7)
ترجمہ: مومن ایک دوسرے کے لیے ایسا ہیں جیسے ایک عمارت کے اینٹیں، جو ایک دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں۔
یہ حدیث ہمیں یاد دلاتی ہے، کہ باہمی تعاون اور اتحاد ہی اصل طاقت ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب اگر مل کر چلیں، تو نہ صرف اپنے عوام کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے اتحاد اور امن کی مثال قائم کر سکتے ہیں۔
معاہدے کے بعد عالمی تجزیہ نگار یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اس کے اثرات بھارت اور ایران پر کیسے پڑیں گے؟ بھارت اس معاہدے کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہا ہے، کیونکہ پاکستان کی سفارتی پوزیشن مضبوط ہونے کا مطلب ہے، کہ جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن ایک بار پھر تبدیل ہو سکتا ہے۔ ایران بھی اپنی حکمتِ عملی کو نئے سرے سے ترتیب دینے پر مجبور ہوگا، کیونکہ سعودی عرب اور پاکستان کا قریب آنا خلیجی خطے کی سیاست پر براہِ راست اثر ڈالے گا۔
ادھر مغربی دنیا، خاص طور پر امریکہ اور یورپ، اس معاہدے کو ایک "عملی حکمتِ عملی" کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ایک طرف وہ پاکستان کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں، دوسری طرف سعودی عرب کی قیادت کو خطے کا محور مانتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا مغرب اس شراکت داری کو اپنے مفادات کے مطابق استعمال کرے گا، یا واقعی خطے میں امن قائم کرنے کی کوشش کرے گا؟ وقت اس کا فیصلہ کرے گا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس معاہدے نے طاقت کے نئے زاویے پیدا کر دیے ہیں۔
یہ بھی ایک دلچسپ پہلو ہے، کہ چین اور روس کی نظریں بھی اس معاہدے پر ہیں۔ چین پہلے ہی سی پیک کے ذریعے پاکستان میں اربوں ڈالر لگا چکا ہے، اب اگر سعودی سرمایہ کاری بھی شامل ہو جائے، تو پاکستان کی سفارتی پوزیشن مزید مضبوط ہوگی۔ روس، جو ہمیشہ خطے میں اپنی جگہ بنانے کا خواہاں رہا ہے، اس معاہدے کو نئے اتحاد کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ گویا ایک معاہدے نے مشرقِ وسطیٰ سے لے کر جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا تک سفارتی ہلچل پیدا کر دی ہے۔
پاکستان کے لیے اصل چیلنج یہ ہوگا، کہ وہ اس معاہدے کو اپنی خارجہ پالیسی کا محور بنائے۔ اگر اسلام آباد نے درست فیصلے کیے، تو یہ معاہدہ پاکستان کو ایک "کلیدی ریاست" کی حیثیت دلوا سکتا ہے، لیکن اگر داخلی سیاست کی کشمکش میں یہ موقع ضائع ہوگیا، تو یہ صرف کاغذی بیانیہ بن کر رہ جائے گا۔
اس موقع پر ہمیں تاریخ سے سبق لینا ہوگا۔ 1960ء کی دہائی میں پاکستان نے غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی اپنائی اور دونوں بلاکس کے ساتھ تعلقات قائم کیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان ایک اہم سفارتی مرکز کے طور پر ابھرا۔ آج پھر ویسا ہی موقع ہے، فرق صرف یہ ہے کہ اس بار پاکستان کے ساتھ سعودی عرب جیسا عالمی اثر رکھنے والا ملک کھڑا ہے۔ اگر دونوں نے حکمت اور تدبر کے ساتھ یہ راستہ اختیار کیا تو آنے والی دہائیوں میں ان کی قیادت پورے خطے کو نئی سمت دے سکتی ہے۔
یہ معاہدہ اس حقیقت کی یاد دہانی ہے، کہ تعلقات صرف معیشت اور دفاع تک محدود نہیں، بلکہ سیاست اور خارجہ پالیسی کی بنیاد بھی انہی پر قائم ہوتی ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کی یہ شراکت داری خطے میں امن، ترقی اور اتحاد کا وہ چراغ بن سکتی ہے، جو آنے والی نسلوں کے لیے روشنی فراہم کرے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس روشنی کو قائم رکھ پائیں گے؟ یہی وہ تجسس ہے، جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے اور یہی اس معاہدے کا اصل چیلنج بھی ہے۔

