Pakistan Aur Saudi Arab Ka Tareekhi Muahida, Imkanaat Aur Asraat (2)
پاکستان اور سعودی عرب کا تاریخی معاہدہ، امکانات اور اثرات (2)

19 ستمبر 2025ء کی وہ تاریخ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کے باب میں ایک اور روشن چراغ کے طور پر لکھی جائے گی۔ جب اسلام کے یہ دو مضبوط قلعے ایک دفاعی معاہدے پر متفق ہوئے تو دنیا نے اسے صرف کاغذی کارروائی نہیں کہا بلکہ ایک نئی تاریخ کی تمہید سمجھا۔ سوچنے کی بات ہے کہ جن رشتوں کی جڑیں نصف صدی سے بھی زیادہ پرانی ہوں، ان میں اگر ایک نیا عہد شامل ہو جائے تو اس کے اثرات کتنے دور رس ہو سکتے ہیں؟
یاد کیجیے 1960ء کی دہائی کو، جب پاکستانی فوج نے سعودی افواج کو پہلی بار عسکری تربیت فراہم کی تھی۔ اُس وقت کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا، کہ یہ بیج ایک دن تناور درخت بن جائے گا۔ پھر 1974ء میں پہلا باقاعدہ دفاعی معاہدہ ہوا اور 1982ء میں افغان جہاد کے دنوں میں دونوں ممالک کی افواج کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی تھیں۔ تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ جہاں اعتماد ہوتا ہے، وہاں فاصلہ باقی نہیں رہتا۔
آج کا معاہدہ محض ہتھیاروں یا فوجی تربیت کا نہیں، بلکہ ایک مکمل فریم ورک ہے۔ اس میں سیاسی ہم آہنگی بھی ہے، اسٹریٹیجک منصوبہ بندی بھی اور ہنگامی ردعمل کی صلاحیت بھی۔ یہ ایسا نظام ہے کہ اگر خطے میں کوئی خطرہ ابھرتا ہے، تو پاکستان اور سعودی عرب ایک آواز اور ایک صف میں کھڑے ہوں گے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: وَاعُتَصِمُوا بِحَبُلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا (آل عمران: 103)
اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ یہی پیغام اس معاہدے کی روح ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس معاہدے سے کیا حاصل ہوگا؟ سب سے بڑی دولت اعتماد ہے۔ اگر پاکستان کو کوئی خطرہ لاحق ہو تو سعودی عرب پہلا شراکت دار ہوگا اور اگر سعودی عرب کو کسی سازش کا سامنا ہو تو پاکستان اس کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ مشترکہ دفاعی منصوبہ بندی، وسائل کا تبادلہ اور مشترکہ کمانڈ۔ یہ سب ایسے اقدامات ہیں جن سے خطے میں طاقت کا توازن بدلے گا اور جارحیت کا خواب دیکھنے والوں کے لیے ایک واضح پیغام جائے گا۔
البتہ کچھ پہلو ابھی کھلنے ہیں، جیسے جوہری اثاثوں کا کردار کیا ہوگا؟ یا مالی بوجھ دونوں ملک کس طرح بانٹیں گے؟ یہ سوالات اور باقی دیگر اپنی جگہ موجود ہیں، لیکن دانشوروں کی رائے یہ ہے کہ مستقبل میں ان پر وضاحت آجائے گی۔ تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ بڑے معاہدے ہمیشہ تدریج سے عملی شکل اختیار کرتے ہیں۔ معاہدہ مدینہ کو دیکھ لیجیے، وہ بھی ابتدا میں چند دفعات پر مشتمل تھا، مگر رفتہ رفتہ ایک مکمل آئین کی صورت اختیار کر گیا۔
نئے معاہدے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ہنگامی ردعمل کے پروٹوکول طے کر لیے گئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر کل کو کوئی غیر متوقع صورتحال سامنے آئے تو حکم جاری ہونے کے بعد گھنٹوں میں ردعمل دیا جا سکے گا۔ یہ صرف عسکری تیاری نہیں بلکہ سیاسی یکجہتی کی بھی علامت ہے۔
اس سب کے بعد ایک بات طے ہے، پاکستان اور سعودی عرب کا یہ دفاعی معاہدہ محض موجودہ وقت کے لیے نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک مضبوط فریم ورک ہے۔ یہ تاریخ کا ایک ایسا سنگ میل ہے جسے دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی۔

