Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Noor Hussain Afzal
  4. Mutahidda Arab Emarat Ki Taamer o Taraqqi Mein Pakistanio Ki Khidmaat

Mutahidda Arab Emarat Ki Taamer o Taraqqi Mein Pakistanio Ki Khidmaat

متحدہ عرب امارات کی تعمیر و ترقی میں پاکستانیوں کی خدمات

ریت کے سمندر میں جب خوابوں کی پہلی عمارت کھڑی ہوئی، تپتے دن اور یخ بستہ راتوں میں پاکستانی مزدور بھی موجود تھے۔ ان کے ہاتھوں میں چھالے، آنکھوں میں اُمید اور دل میں عزم تھا۔ دبئی کے فلک بوس ٹاور ہوں یا ابو ظہبی کی کشادہ شاہراہیں، یہ صرف سیمنٹ اور لوہے کے ڈھانچے نہیں، بلکہ وہ دیواریں ہیں جو پاکستانی محنت اور قربانی سے جڑیں۔

وَأَنُ لَيُسَ لِلُإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ (سورۃ النجم، آیت 39)

ترجمہ: اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں مگر وہی جس کی اُس نے کوشش کی۔

وقت گزرتا گیا اور محض مزدور ہی نہیں، علم و ہنر کے چراغ بھی پاکستان سے یہاں لائے گئے۔ شارجہ کے اسکولوں میں جب پہلی گھنٹی بجی تو کلاس روم کی تختی پر حروفِ تہجی ایک پاکستانی استاد کے ہاتھ سے لکھے گئے۔ آج ابوظہبی، دبئی، شارجہ، عجمان، العین، فُجیرہ اور راس الخیمہ میں پاکستانی اسکول نئی نسل کے لیے سایہ دار شجر ہیں۔ ان اسکولوں کا نصاب فیڈرل بورڈ اسلام آباد سے منسلک ہے، جو بچوں کو اپنی جڑوں سے جوڑے رکھتا ہے اور مستقبل کے لیے تیار بھی کرتا ہے۔ العین میں ADEK کے امتحان کے بغیر تدریس ممکن نہیں، جو استاد اس امتحان میں کامیاب ہوتا ہے، وہ علم کا سچا سپاہی ہے۔ ایسے استاد بچوں کی بنیاد مضبوط اور اعتماد روشن کرتے ہیں۔

طب و صحت کے شعبے میں بھی پاکستانی ڈاکٹرز نے روشنی کے چراغ جلائے۔ کووِڈ کے دنوں میں جب خوف چھایا ہوا تھا، پاکستانی ڈاکٹرز نے جان کی پرواہ کیے بغیر خدمت کی۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی قوم صرف محنت ہی نہیں، ایثار اور قربانی کا فن بھی جانتی ہے۔

بازاروں اور منڈیوں میں جائیں تو وہاں بھی پاکستانیوں کی محنت کی خوشبو بکھری ہوئی ملتی ہے۔ دبئی کے گلوبل ولیج میں جھولتے رنگین کپڑے، شارجہ کے بازاروں میں بھری دکانیں، یہ سب پاکستانی تاجروں کی کہانی سناتے ہیں، جنہوں نے چھوٹے کاروبار سے لے کر بڑی کمپنیوں تک اپنی پہچان بنائی۔

انجینئرنگ اور تعمیرات کے شعبے میں بھی پاکستانی ہاتھوں کی محنت چھپی نہیں۔ پل، انٹرچینجز، اسمارٹ سڑکیں، یہ سب اُن دماغوں کی دین ہیں جو پاکستان میں تعلیم پائے اور یہاں آ کر اپنی صلاحیتوں کا کمال دکھایا۔

پاکستانی کمیونٹی نے صرف کام نہیں کیا، بلکہ اپنے اخلاق اور تہذیب سے یو اے ای کے معاشرتی دھارے کو بھی تقویت دی۔ فلاحی کاموں میں شرکت ہو یا کھیل کے میدانوں میں موجودگی، ہر جگہ ایک مثبت پہچان بنی۔ شارجہ کرکٹ اسٹیڈیم تو پاکستانیوں کی یادگار ہے، جہاں ہر چوکا اور چھکا اپنی دھرتی کی گونج بن کر گرتا ہے۔

پاکستانیوں کی خدمات کا ایک اور پہلو ترسیلات زر ہیں۔ محنت کش دن بھر دھوپ میں پسینہ بہاتے ہیں اور رات کو اپنے گھر فون کرکے دل کی دھڑکن پاکستان کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ ہر سال اربوں ڈالر وطن بھیج کر وہ اپنی ماں دھرتی کی معیشت کو سہارا دیتے ہیں۔ یوں ایک ہاتھ سے یو اے ای کی عمارت تعمیر اور دوسرے سے پاکستان کی معیشت مضبوط کرتے ہیں۔

پاکستانی خواتین بھی پیچھے نہیں رہیں۔ اسکولوں میں معلمات، ہاسپٹل میں پاکستانی لیڈی ڈاکٹروں اور دیگر شعبوں میں ثابت کیا، کہ پاکستانی عورت صرف گھر کی دیواروں تک محدود نہیں، بلکہ ترقی کی راہوں میں شریکِ سفر بھی ہے۔

یہ سب خدمات اس امر کی گواہی ہیں کہ پاکستانی قوم اور یو اے ای محض دوست نہیں، بلکہ بھائی ہیں۔ مستقبل میں تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں اس تعلق کو مزید گہرا کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے نوجوان اگر جدید مہارتوں سے آراستہ ہوں تو یہ رشتہ اور مضبوط ہوگا۔

آخر میں رسولِ اکرم ﷺ کا فرمان یاد آتا ہے: تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے۔ (سنن ترمذی)

یقیناً پاکستانی قوم نے یو اے ای کو نفع پہنچا کر اس فرمان کی عملی تصویر پیش کی۔ یہ تعلق محض روزگار کا نہیں بلکہ بھائی چارے اور شراکت داری کا ہے، جو آنے والے دنوں میں مزید گہرا ہوگا۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan