Khaleeji Mumalik Ka Single Tourist Visa, Inqilabi Qadam
خلیجی ممالک کا سنگل ٹورسٹ ویزا، انقلابی قدم

جب میں نے یہ خبر پہلی بار سنی کہ خلیج کے چھ ممالک ایک ایسے ویزے پر متفق ہو چکے ہیں، جو 6 ممالک کے لیے یکساں ہوگا، تو دل میں روشنی کی ایک کرن سی جاگ اٹھی۔ ایک خواب جو برسوں سے فضائے خلیج میں گردش کر رہا تھا، اب تعبیر کے قریب پہنچا۔ یہ بات ہے جون 2023 کی، جب خلیجی تعاون کونسل کے اجلاس میں پہلی مرتبہ یہ تجویز سامنے آئی، کہ ایک ایسا سیاحتی ویزا جاری کیا جائے، جو چھ ممالک، یعنی متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، قطر، بحرین، کویت اور عمان کے لیے یکساں حیثیت رکھے۔ اس تجویز کو اس وقت محض خیال سمجھا گیا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ خیال حقیقت کی شکل اختیار کرنے لگا۔
یہ وہی خیال تھا، جس کا ذکر میں نے 13 اکتوبر 2023 کے میں اپنے کالم "کیا خلیجی ممالک میں ایک ویزا سسٹم کے ذریعے سفر ممکن ہوگا؟
جو میری مطبوعہ کتاب "مقالات نور" جلد نمبر پانچ کا حصہ ہے۔
جو ڈیلی اردو کالمز میں 13 اکتوبر 2023 کو شائع ہوا تھا۔ اُس وقت میں نے لکھا تھا کہ "دنیا اب دیواریں نہیں، دروازے مانگتی ہے اور خلیج ایک دن اپنی سرحدوں کو اعتماد کے رشتے میں بدل دے گی"۔
آج جب 6 اکتوبر 2025 میں اس خواب کے عملی فیصلے کا اعلان کیا گیا ہے، تو دل میں وہی احساس تازہ ہوگیا، کہ کبھی جو بات خیال میں تھی، اب حقیقت کے صفحے پر اتر آئی ہے۔
میں نے خلیجی زمینوں پر برسوں سفر کیا ہے۔ ہر منظر میں ایک ربط محسوس ہوتا ہے۔ زبانیں مختلف، لیکن مسکراہٹ ایک۔ ثقافتیں جدا، مگر مہمان نوازی کا رنگ ایک۔ ان سفر کے دنوں میں کئی بار دل میں یہ خواہش جاگی، کہ اگر ایک ہی ویزا ان سب ممالک کے دروازے کھول دے، تو کیسی سہولت ہو، کیسی وسعتِ نظر ہو، کیسی دلوں کی قربت پیدا ہو۔ آج جب یہ فیصلہ سامنے آیا ہے، تو ایسا لگا، جیسے وہ پرانی خواہش ہوا کے کسی جھونکے کے ساتھ لوٹ آئی ہو اور میرے دل نے کہا۔ "اللہ نے خلیج کو دلوں سے جوڑنے کا وقت لکھ دیا ہے"۔
میں سوچتا ہوں، کبھی کبھی خواب اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ ان کی تعبیر کے لیے سالوں کی محنت درکار ہوتی ہے۔ یہی کچھ اس منصوبے کے ساتھ بھی ہوا۔ ابتدا میں محض ایک خیال تھا، کہ اگر یورپ کے ممالک "شینجن ویزا" کے تحت ایک دوسرے کے دروازے کھول سکتے ہیں، تو خلیجی ممالک کیوں نہیں؟
بالآخر 2023 کے اختتام تک اس خواب کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کے بعد ایک ایک اینٹ اس عمارت کی رکھی جاتی رہی، کبھی قوانین کی سطح پر، کبھی ڈیجیٹل نظام کی تیاری میں اور کبھی پالیسی کے خدوخال میں۔
پھر سال 2025 آیا، جب اس خواب کی حقیقت واضح ہونے لگی۔ متحدہ عرب امارات کے وزیرِ معیشت و سیاحت عبداللہ بن طوق المری نے ستمبر 2025 میں اعلان کیا، کہ یہ منصوبہ اب حتمی مراحل میں ہے اور توقع ہے کہ چوتھی سہ ماہی 2025 میں اس کا عملی آغاز ہوگا۔ اسی دوران جی سی سی کے سیکرٹری جنرل جاسم البُدیوی نے وضاحت کی، کہ تمام ممالک ڈیجیٹل نظام کو ہم آہنگ کرنے پر کام کر رہے ہیں، تاکہ سیاحوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم دیا جائے، جو سہل، محفوظ اور متحد ہو۔
یہ اعلان بظاہر ایک انتظامی خبر تھی، لیکن اگر غور سے دیکھا جائے، تو یہ ایک نئی تاریخ کی ابتدا ہے۔ خلیج، جو ہمیشہ اتحاد، اخوت اور ترقی کی علامت رہی ہے، اب سیاحت کے میدان میں بھی ایک نئی سمت متعین کرنے جا رہی ہے۔ ایک ایسا ویزا جو کسی سیاح کے لیے چھ دروازے کھول دے، دبئی سے دوحہ، دوحہ سے ریاض، ریاض سے مسقط اور پھر بحرین سے کویت، ایک ہی اجازت نامے کے ساتھ۔ یہ وہ خواب ہے جو نہ صرف سیاحت بلکہ معیشت، ثقافت اور تعلقات کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر سکتا ہے۔
مجھے یاد ہے، کہ جب میں پہلی بار گلف میں داخل ہوا تھا، تو ویزے کے مراحل نے کئی گھنٹے لیے۔ اس وقت دل میں یہ خیال آیا تھا، کہ اگر کبھی یہ دیواریں نرم ہوگئیں، تو یہ خطہ سیاحت، تجارت اور بھائی چارے کا روشن محور بن جائے گا۔ آج وہی خواب اپنی تعبیر کے در پر کھڑا ہے۔
یہ ویزا جہاں سیاحوں کے لیے آسانی پیدا کرے گا، وہاں خلیجی ممالک کی معیشت پر بھی مثبت اثر ڈالے گا۔ سیاحت کی آمدنی بڑھے گی، ثقافتی تبادلے ہوں گے اور عالمی برادری میں خلیج ایک متحد، متحرک اور جدید خطے کے طور پر ابھرے گا۔ دنیا پہلے ہی دبئی، ریاض اور دوحہ کو ترقی اور جدیدیت کی علامت مانتی ہے، اب جب یہ چھ ممالک ایک پلیٹ فارم پر آئیں گے، تو یقیناً سیاحتی صنعت کے نقشے پر ایک نیا باب رقم ہوگا۔
البتہ ہر خواب کے ساتھ کچھ خدشات بھی جڑے ہوتے ہیں۔ کیا تمام ممالک اس ویزے کے اصول و ضوابط پر مکمل اتفاق کر پائیں گے؟ کیا سکیورٹی، امیگریشن اور داخلی خودمختاری کے پہلوؤں کو ہم آہنگ کرنا آسان ہوگا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب وقت دے گا۔ لیکن اگر نیت خالص ہو، مقصد واضح ہو اور جذبہ مشترکہ ہو، تو منزلیں خود راستہ بناتی ہیں۔
یہ کہنا بجا ہوگا کہ یہ فیصلہ خلیجی قیادت کے دور اندیش وژن کا نتیجہ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ آج کی دنیا میں ترقی کا راز تنہائی میں نہیں، بلکہ اشتراک میں ہے۔ ایک ملک کی ترقی جب دوسرے ملک کے ساتھ جڑی ہو، تو پورا خطہ آگے بڑھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ "سنگل ٹورسٹ ویزا" دراصل خلیج کے روشن مستقبل کی نشانی ہے۔
آنے والے مہینے اس خواب کے عملی آغاز کے گواہ ہوں گے۔ شاید دسمبر 2025 کی کسی صبح، جب دبئی، دوحہ اور ریاض کے ہوائی اڈے ایک ہی ویزے کے تحت آنے والے سیاحوں کا خیرمقدم کریں گے، تب تاریخ اپنے نئے باب کی پہلی سطر لکھے گی۔ وہ لمحہ صرف انتظامی کامیابی نہیں ہوگا، بلکہ یہ اس جذبے کی علامت ہوگا، کہ اتحاد اگر نیت کے ساتھ ہو تو زمین کی سرحدیں بھی مٹ جاتی ہیں۔
میں اس خبر کو محض خبر نہیں سمجھتا، بلکہ ایک نئے دور کی بشارت سمجھتا ہوں۔ خلیج کے ریتیلے ساحلوں سے اٹھنے والی یہ ہوا اب پوری دنیا میں پھیلے گی اور دنیا دیکھے گی، کہ جب خواب ایمان، تدبیر اور تجربے کے لمس کے ساتھ ملیں، تو نقشہ حقیقت بھی بدل جاتا ہے۔

