Jabal e Jaish, Uae Ki Buland Tareen Choti Ka Safar
جبل جیش، یو اے ای کی بلند ترین چوٹی کا سفر

جبل جیش ایک ایسا نام جو سننے والوں کو ہیبت، کشش اور اسرار میں لپیٹ لیتا ہے۔ یہ وہ چوٹی ہے جو متحدہ عرب امارات کی سب سے بلند ترین بلندی ہے۔ سطحِ سمندر سے 1934 میٹر کی بلندی پر واقع یہ پہاڑ نہ صرف قدرت کی صناعی کا عظیم شاہکار ہے بلکہ یو اے ای کی تاریخ اور سیاحت میں بھی اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں کی بلند فضاؤں میں وہ ٹھنڈک اور تازگی ہے جو پورے عرب خطے میں کہیں اور میسر نہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں کبھی کبھی برف باری بھی ہوتی ہے، گویا ریگستانی عرب دنیا میں یہ پہاڑ اپنی الگ ہی دنیا آباد کیے ہوئے ہے۔
ہمارا یہ سفر شارجہ سے شروع ہوا۔ ایک روشن صبح ہم نے گاڑی کا رخ شمال کی طرف کیا۔ تقریباً ایک گھنٹہ اور تیس منٹ کے بعد ہم جبل جیش کے دامن تک دو گاڑیوں میں پہنچے۔ وہاں سے ڈرائیو کرتے ہوئے تقریباََ 30 منٹ کا سفر اوپر چوٹی پر پہنچنے کے لیے باقی تھا۔ بل کھاتی ہوئی سڑکیں، گھاٹیوں کے دلکش مناظر اور اونچائی کی جانب ہر لمحہ بڑھتا ہوا سفر ہمیں ایک اور ہی دنیا کی طرف لے جا رہا تھا۔
اس سفر میں میرے ساتھ میرا بیٹا محمد ریحان نور، بیٹی فاطمہ نور اور شریکِ حیات امِ ریان بھی تھیں۔ مزید یہ کہ اس موقع پر ہمارے ڈاکٹر رحیم حسین، جو دبئی یونیورسٹی کے شعبۂ مارکیٹنگ سے وابستہ ہیں، وہ بھی اپنی فیملی کے ساتھ ہمارے ہم سفر تھے۔ راستے بھر میں گفتگو، ہنسی مذاق اور قدرتی مناظر نے ہمیں یوں محو رکھا کہ سفر کی تھکن کا احساس ہی نہ ہوا۔
جبل جیش کو یہ نام اس کے تاریخی پس منظر سے ملا۔ عربی میں"جیش" کا مطلب ہے "فوج" اور روایات کے مطابق ماضی میں اس چوٹی کے دامن میں فوجی دستے قیام کیا کرتے تھے، اسی نسبت سے یہ پہاڑ "جبل جیش" کہلایا۔ یو اے ای حکومت نے اسے عالمی سیاحتی مقام بنانے کا فیصلہ 2014 میں کیا۔ سڑکوں کی تعمیر، حفاظتی اقدامات اور تفریحی مقامات کے قیام پر کروڑوں درہم خرچ کیے گئے اور بالآخر یہ منصوبہ مرحلہ وار مکمل ہوا۔
جبل جیش کی اہمیت صرف اس کی بلندی تک محدود نہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں یو اے ای کے دوسرے حصوں کے برعکس سرد موسم اور کبھی کبھار برف باری دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ چوٹی سال کے ہر موسم میں سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہے۔ یہاں کی سڑکیں جدید انجینئرنگ کا شاہکار ہیں، بل کھاتی ڈبل لین شاہراہیں، محفوظ موڑ اور ایسے ویو پوائنٹس جہاں رک کر انسان قدرت کی وسعتوں کو حیرت سے دیکھتا رہ جائے۔
جب ہم چوٹی کی جانب بڑھتے گئے، تو منظر بدلتا گیا۔ ایک طرف پہاڑوں کی خاموشی اور دوسری جانب نیچے پھیلی ہوئی وادیوں کے مناظر۔ ڈاکٹر رحیم حسین اپنی فیملی کے ساتھ بار بار رُکتے، تصاویر بناتے اور قدرتی مناظر کو اپنے کیمرے میں محفوظ کرتے رہے۔ ہم نے بھی اپنی فیملی کے ساتھ تصویریں بنائیں اور یوں ہر لمحہ یادگار بنتا چلا گیا۔
جبل جیش کی سب سے بڑی کشش اس کا عالمی شہرت یافتہ "زپ لائن" ہے جو 2.83 کلومیٹر طویل ہے اور 2018 میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں شامل ہوئی۔ یہ دنیا کی سب سے لمبی زپ لائن ہے، جس پر سیاح پرندوں کی طرح فضاؤں میں پرواز کا لطف اٹھاتے ہیں۔ اسی طرح پہاڑ کے اوپر بنایا گیا پارک، کیفے ٹیریاز اور جدید سہولتوں سے آراستہ ویو ڈیکس اسے ایک مکمل تفریحی مقام بناتے ہیں۔
یہ پہاڑ اپنی فطری اور انسانی خصوصیات کا ایک حسین امتزاج ہے۔ ایک طرف یہاں کی قدرتی ٹھنڈک اور بادلوں سے ہمکلام چوٹی ہے، تو دوسری طرف جدید سہولتوں کے ساتھ بنائی گئی سڑکیں اور پارکس۔ دنیا میں کم ہی ایسے مقامات ہیں جہاں برف، سبزہ اور ریگستانی مناظر ایک ساتھ دیکھنے کو ملیں۔ جبل جیش میں یہ سب ایک ہی فضا میں اکٹھے محسوس ہوتے ہیں۔
یہاں کا موسم سال کے بیشتر حصے میں خوشگوار رہتا ہے۔ گرمیوں میں جب دبئی اور دیگر امارات کا درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ کو چھو رہا ہوتا ہے، جبل جیش پر ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں اور درجہ حرارت 20 ڈگری تک گر جاتا ہے۔ سردیوں میں یہاں بعض اوقات برف باری بھی ہو جاتی ہے، جو پورے یو اے ای میں ایک منفرد منظر ہے۔
ہم نے کئی گھنٹے اس چوٹی پر گزارے۔ بچے دوڑتے پھر رہے تھے، امِ ریان نے وادیوں کو دیکھ کر سکون کا اظہار کیا اور میں اس پہاڑ کے طلسماتی حسن میں کھو گیا۔ جبل جیش صرف ایک پہاڑ نہیں، بلکہ قدرت، تاریخ اور جدیدیت کا وہ سنگم ہے، جو دل کو ہمیشہ اپنی جانب کھینچتا رہے گا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں انسان اپنی ذات کو وسعتِ آفاق میں گمشدہ پاتا ہے اور ہر لمحہ اس خالقِ کائنات کی صناعی پر حیرت کرتا ہے۔
واپسی کے سفر میں جب سورج غروب ہونے لگا تو آسمان سنہری اور سرخی مائل رنگوں میں نہا گیا۔ یہ وہ لمحہ تھا، جس کے لیے دور دور سے سیاح صرف یہ منظر دیکھنے آتے ہیں۔ راس الخیمہ کی حکومت نے چوٹی پر ایک خوبصورت پارک تعمیر کیا ہے، جہاں دوربینیں نصب کی گئی ہیں۔ لوگ ان دوربینوں کے ذریعے سورج غروب ہونے کا یہ دل کش اور ایمان افروز منظر دیکھتے ہیں۔
ڈوبتے سورج کی کرنیں جب پہاڑ کی چوٹیوں پر بکھرتی ہیں، تو گویا آسمان اور زمین ایک دوسرے سے ہمکلام ہوتے ہیں۔ یہ منظر دل کو نہ صرف مسحور کر دیتا ہے، بلکہ انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین کامل پیدا کر دیتا ہے۔ ہر کرن گویا گواہی دیتی ہے، کہ کائنات کا یہ حسن کسی حادثے کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک عظیم خالق کی صناعی ہے، جسے دیکھ کر دل بے ساختہ تسبیح کرنے لگتا ہے۔

