Hijri Saal Ki Ibteda
ہجری سال کی ابتداء
اسلام سے قبل صرف عیسوی سال اور مہینوں سے تاریخ لکھی جاتی تھی، مسلمانوں میں تاریخ لکھنے کی روایت نہیں تھی۔ 17 ہجری میں حضرت عمرؓ کی خلافت کے دوران حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے حضرت عمرؓ کےنام ایک خط لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ آپ کی طرف سے حکومت کے مختلف علاقوں میں خطوط جاری کیے جاتے ہیں لیکن تاریخ ان خطوط میں نہیں لکھی جاتی۔ حالانکہ تاریخ لکھنے سے فائدہ یہ ہو گا کہ آپ نے حکم کس دن جاری کیا اور کب پہنچا اور کب اس پر عمل ہوا۔ ان تمام باتوں کو سمجھنا تاریخ لکھنے پر منحصر ہے۔
چنانچہ حضرت عمرؓ نے اسے بہت مناسب سمجھا اور فورا اکابر صحابہؓ کا اجلاس بلایا۔ اس میں مشورہ دینے والے صحابہ کرام کی طرف سے چار قسم کی رائے سامنے آئی۔
پہلےاکابر صحابہ کی ایک جماعت کی رائے تھی کہ آپ ﷺ کی ولادت کے سال سے اسلامی سال کی ابتدا کی جائے۔ دوسری جماعت اس رائے کا حامل تھا کہ اسلامی سال نبوت کے سال سے شروع ہونا چاہیے۔ تیسری جماعت کی رائے تھی کہ ہجرت سے اسلامی سال کی ابتداء کی جائے۔ چوتھی جماعت کی یہ رائے تھی کہ اسلامی سال کا آغاز آپﷺ کے وصال سے ہونا چاہیے۔
ان چاروں قسم کی رائے سامنے آنے کے بعد ان پر باضابطہ بحث ہوئی۔ پھر حضرت عمرؓ نے یہ فیصلہ سنایا کہ ولادت یا نبوت سے اسلامی سال کی ابتدا کرنے میں اختلاف سامنے آسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کی پیدائش کے دن کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کی بعثت کا دن قطعی طورپر اس وقت متعین نہیں بلکہ اس میں اختلاف ہے۔
وصال سے شروع کرنا بھی مناسب نہیں ہے کیونکہ وصال کا سال اسلام اور مسلمانوں کے لیے دکھ اور صدمے کا سال ہے۔ اس لیے اسلامی سال کا آغاز ہجرت سے کرنا مناسب ہوگا۔ اس میں چار خوبیاں ہیں۔
حضرت عمرؓفرماتے ہیں کہ ہجرت نے حق اور باطل کے درمیان واضح فرق کیا۔ یہی وہ سال ہے جس میں اسلام نے عزت اور طاقت حاصل کی۔ یہی وہ سال ہے جس میں حضورﷺ اور مسلمانوں نے اللہ کی عبادت امن وسکون کے ساتھ بغیر کسی خوف کے شروع کی۔ مسجد نبوی کی بنیاد اسی سال رکھی گئی۔
ان تمام خوبیوں کی بناپر پر تمام صحابہ کرام کا اتفاق اور اجماع اس بات پر ہواکہ اسلامی سال کا آغاز ہجرت کے سال ہی سے ہو۔ پھر اسی اجلاس میں ایک اور مسئلہ پیدا ہوا کہ سال میں بارہ مہینے ہوتے ہیں جن میں سے چار ماہ حرمت والے ہیں۔ ذیقعدہ، ذی الحجہ، محرم اور چوتھا رجب۔ جوجمادی الثانی اور شعبان کے درمیان میں ہے۔
یہاں تک کہ سال کے مہینے کے آغاز میں اکابر صحابہؓ کی مختلف آراء سامنے آئیں کہ سال کے مہینےکاآغاز کس مہینے سے کیاجائے؟
چنانچہ اس سلسلے میں بھی اکابر صحابہ کرام کی طرف سے چار قسم کی رائے سامنےآئی۔ ایک جماعت نے یہ مشورہ دیا کہ رجب کے مہینہ سے سال کے مہینہ کی ابتداء کی جائے، کیونکہ رجب سے ذی الحجہ کے مہینےتک چھ ماہ ہوتے ہیں۔ پھر محرم سے لے کر رجب کے آغاز تک چھ مہینے ہوتے ہیں۔
دوسری جماعت نے یہ مشورہ دیا کہ رمضان کے مہینہ سےسال کے مہینے کا آغاز ہو، لہذا رمضان وہ بہترین مہینہ ہے جس میں پورا قرآن نازل ہوا ہے۔
تیسری جماعت نے یہ مشورہ دیا کہ ماہ محرم سے سال کے مہینے کا آغاز ہو کیونکہ محرم کے مہینے میں حجاج کرام حج ادا کرکے واپس لوٹیں ہیں۔
چوتھی جماعت نے یہ مشورہ دیا کہ ربیع الاول سے سال کے مہینے کی ابتداء کی جائے، کیونکہ اس مہینے میں حضور ﷺ نے ہجرت فرمائی، کہ شروع میں ربیع الاول میں مکہ مکرمہ سے سفر شروع فرمایا اور آٹھ ربیع الاول کو مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ توحضرت عمرؓ نے بڑے احترام سے سب کی رائے سنی۔ پھر آخر میں یہ فیصلہ دیا کہ محرم کے مہینہ سےسال کا آغاز ہوناچاہیے۔ اس کے دو فوائد ہیں۔ حضرات انصار نے بیعتِ عقبہ کے موقع پر حضورﷺ کو مدینہ منورہ ہجرت کر کے تشریف لانے کی دعوت دی اور آپ نے انصار کی دعوت قبول کر لی اور یہ حج ذی الحجہ کے مہینے کے بعد پیش آیاتھا اورحضور ﷺ نے محرم کے شروع سے صحابہ کرام کو ہجرت کے لئے روانہ کرنا شروع فرما دیا تھا، لہذا ہجرت کی ابتداء محرم کے مہینے سے ہوئی اور اس کی تکمیل ربیع الاول میں آپﷺ کی ہجرت سے ہوئی۔
حج سال میں صرف ایک بار ادا ہوتا ہے۔ اور حج مکمل کرنے کے بعد حاجی محرم کے مہینے میں اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ ان خوبیوں کی وجہ سے سال کے مہینے کا آغاز محرم کے مہینہ سے مناسب ہے۔ اس پر تمام صحابہ کا اتفاق اور اجماع ہوا کے سال کے مہینہ کی ابتداء محرم سے ہو۔ لہذا اسلامی سال کی ابتداء ہجرت سے اور اسلامی مہینے کی ابتداء محرم الحرام سے مان لی گئی۔
اللہ نےروزے، عید اور حج کا مدار اسلامی سال اور اسلامی تاریخوں پر رکھا ہے۔ عیسوی تاریخ پر نہیں رکھا۔ دراصل عیسوی تاریخ ہجری تاریخ کے ماتحت ہے۔ دلی دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی دوبارہ مسلمانوں کو اسلامی ہجری سال کی اہمیت کا احساس ان کے دلوں میں موجزن فرمائے۔ اور شادی بیاہ، سفر اور دیگر معاملات اسلامی تاریخوں کے عین مطابق سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔