Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Noor Hussain Afzal
  4. Hazrat Usman Ke 6 Ausaf e Hameeda

Hazrat Usman Ke 6 Ausaf e Hameeda

حضرت عثمانؓ کی چھ اوصاف حمیدہ

اللہ تعالی نے حضرت عثمان بن عفانؓ کو چند ایسی اوصاف حمیدہ سے نوازا تھا۔ جن کی نظیر خال خال ہی نظر آتی ہے۔ ذیل میں ان کا تذکرہ پیش خدمت ہے۔

1۔ حیاء و پاکدامنی شرم وحیاء حضرت عثمان ؓ کا امتیازی وصف تھا، اس لیے مؤرخین نے ان کے اخلاق وعادات کے بیان میں حیاء کا مستقل عنوان قائم کیا، آپ میں اس درجہ شرم وحیاء تھی کہ خود حضور پرنور ﷺ اس حیا کا پاس ولحاظ رکھتے تھے، ایک دفعہ صحابہ کرام ؓ کا مجمع تھا، رسول اللہ ﷺ بے تکلفی کے ساتھ تشریف فرما تھے، زانوئے مبارک کا کچھ حصہ کھلا ہوا تھا۔

اسی حالت میں حضرت عثمان ؓ کے آنے کی اطلاع ملی تو سنبھل کر بیٹھ گئے اور زانوئے مبارک پر کپڑا برابر کر لیا، لوگوں نے حضرت عثمان کے لیے اس اہتمام کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ عثمان ؓ کی حیاء سے فرشتے بھی شرماتے ہیں، (بخاری ج 1 مناقب حضرت عثمان) اسی قسم کا ایک اور واقعہ حضرت عائشہ ؓ بھی بیان فرماتی ہیں، (مسند احمد بن حنبل جلد اول:71) حضرت ذوالنورین ؓ کی حیا کا یہ عالم تھا کہ تنہائی اور بند کمرے میں بھی وہ برہنہ نہیں ہوتے تھے۔

2۔ زہد تقوی حضرت عثمان ؓ اگرچہ اپنی خلقی ناتوانی اور ضعف پیری کے باعث اور کسی قدر اس سبب سے کہ انہوں نے ناز ونعمت میں پرورش پائی تھی، ہلکی غذا اور نرم پوشاک استعمال کرنے پر مجبور تھے اور فاروق اعظم ؓ کی طرح موٹا چھوٹا کپڑا اور روکھا پھیکا نہیں کھا سکتے تھے۔ لیکن اس سے یہ قیاس نہیں کرنا چاہیے کہ آپ عیش و تنعم کے گرویدہ تھے۔

بلکہ انہوں نے باوجود غیر معمولی دولت وثروت کے کبھی امیرانہ زندگی اختیار نہیں فرمائی اور نہ کبھی صرف زیب وزینت کی چیزیں استعمال کیں، "قز" ایک خوش وضع رومی کپڑا تھا۔ جو عرب کا مطبوع عام لباس تھا، امرا توامراء متوسط درجہ کے لوگ بھی اس کو پہننے لگے تھے۔ لیکن حضرت عثمان ؓ نے کبھی اس کو استعمال نہ فرمایا اور نہ اپنی بیویوں کو استعمال کرنے دیا۔

3۔ تواضع و انکساری تواضع اور سادگی کا یہ حال تھا کہ گھر میں بیسیوں لونڈی اور غلام موجود تھے۔ لیکن اپنا کام آپ ہی کرلیتے تھے اور کسی کو تکلیف نہ دیتے، رات کو تہجد کے لیے اٹھتے اور کوئی بیدار نہ ہوتا توخود ہی وضو کا سامان کرلیتے اور کسی کو جگا کر اس کی نیند خراب نہ فرماتے، اگر کوئی درشت کلامی کرتا تو آپ نرمی سے جواب دیتے۔

ایک دفعہ عمروبن العاص نے اثنائے گفتگو میں حضرت عثمان ؓ کے والد کی شرافت پر طعنہ زنی کی، حضرت عثمان ؓ نے نرمی سے جواب دیا کہ عہد اسلام میں زمانہ جاہلیت کا کیا تذکرہ ہے، (طبری ص 2966) اسی طرح ایک دفعہ جمعہ کے روز منبر پر خطبہ دے رہے تھے کہ ایک طرف سے آواز آئی، عثمان توبہ کر اور اپنی بے اعتدالیوں سے باز آ، حضرت عثمان ؓ نے اسی وقت قبلہ رخ ہو کر ہاتھ اٹھایا اور کہا۔ اللھم انی اول تائب تاب الیک (طبری ص 1972) یعنی اے خدا میں پہلا توبہ کرنے والا ہوں، جس نے تیری درسگاہ میں رجوع کیا۔

4۔ ایثار و قربانی آپ نے مسلمانوں کے مال میں ہمیشہ ایثار سے کام لیا، چنانچہ اپنے زمانہ خلافت میں ذاتی مصارف کے لیے بیت المال سے کبھی کچھ نہیں لیا، (طبری ص 2653) اور اس طرح گویا اپنا مقررہ وظیفہ عام مسلمانوں کے لیے چھوڑ دیا۔ حضرت عمر ؓ کا سالانہ وظیفہ پانچ ہزار درہم تھا، اس حساب سے حضرت عثمان ؓ نے اپنے دوازدہ سالہ مدت خلافت کی تمام گراں قدر رقم مسلمانوں کے لیے چھوڑی، جو درحقیقت ایثار نفس کا نمونہ ہے۔

5۔ سخاوت و فیاضی حضرت عثمان ؓ عرب میں سب سے زیادہ دولت مند تھے، اس کے ساتھ خدا نے فیاضی طبع بھی بنا دیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنی فیاضی، اپنے مال ودولت سے اس وقت اسلام کو فائدہ پہنچایا، جب اس امت میں کوئی دوسرا ان کا ہمسر موجود نہ تھا۔ مدینہ میں تمام کنوئیں کھاری تھے، صرف بیررومہ، جو ایک یہودی کی ملکیت میں تھا شیریں تھا۔

حضرت عثمان ؓ نے رفاہِ عام کے خیال سے اس کو بیس ہزار درہم میں خریدکر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا، اسی طرح جب مسلمانوں کی کثرت ہوئی اور مسجد نبوی میں جگہ کی تنگی کے باعث نمازیوں کو تکلیف ہونے لگی تو حضرت عثمانی ؓ نے ایک گراں قدر رقم صرف کرکے اس کی توسیع کرائی۔ آپ کی فیاضی کا سب سے زیادہ نمایاں کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے غزوہ تبوک کے موقع پر ہزاروں درھم سے مجاہدین کو آراستہ کیا۔

یہ فیاضی ایسے وقت میں ظاہر ہوئی، جبکہ عام طور پر مسلمانوں کی عسرت اور تنگی نے پریشان کر رکھا تھا اور دوسری طرف قیصر روم کی جنگی تیاریوں سے خود رسول اللہ ﷺ کو تشویش دامن گیر تھی۔ مذکورہ بالا فیاضیوں کے علاوہ روزانہ جودوکرم اورصدقات وخیرات کا سلسلہ جاری رہتا تھا، ہر جمعہ کو ایک غلام آزاد کرتے تھے، (نزہۃ الابرار قلمی) بیواؤں اور یتیموں کی خبر گیری کرتے تھے۔

مسلمانوں کی عسرت وتنگ حالی سے ان کو دلی صدمہ ہوتا تھا، ایک دفعہ ایک جہاد میں ناداری اور مفلسی کے باعث مسلمانوں کے چہرے اداس تھے اور اہل نفاق ہشاش ہر طرف اکڑتے پھرتے تھے، اسی وقت چودہ اونٹوں پر سامان خور و نوش لاد کر آنحضرت ﷺ کے پاس بھیجا کہ اس کو مسلمانوں میں تقسیم کرادیں۔ (کنز العمال جلد 6 صفحہ374)

6۔ صبر وتحمل صبر وتحمل کا پیکر تھے، مصائب وآلام کو نہایت صبر وسکون کے ساتھ برداشت کرتے تھے، شہادت کے موقع پر چالیس دن تک جس بردباری ضبط اور تحمل کا اظہار آپ کی ذات سے ہوا وہ اپنی آپ نظیر ہے، سینکڑوں وفا شعار غلام اور ہزاروں معاون وانصار سرفروشی کے لیے تیار تھے، مگر اس ایوب وقت نے خون ریزی کی اجازت نہ دی اور اپنے اخلاقِ کریمانہ کا آخری منظر دکھا کر ہمیشہ کے لیے دنیا سے روپوش ہو گئے۔

اللہ تعالی اپنی شان کے مطابق آپ کے ساتھ بہترین معاملہ فرمائے اور ہمیں آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Check Also

Makhloot Mehfil

By Teeba Syed