Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Noor Hussain Afzal
  4. Hazrat Umar Ka Ilmi Maqam Aur Martaba

Hazrat Umar Ka Ilmi Maqam Aur Martaba

حضرت عمرؓ کا علمی مقام اور مرتبہ

جب سے یہ کائنات معرض وجود میں آئی ہے۔ اس وقت سے علم کی فضیلت و اہمیت محتاج بیاں نہیں رہی۔ علم اور صاحب علم کو زمانے نے ہمیشہ قدر و منزلت عطا کی۔ جناب نبی اکرم ﷺ کی بعثت کے وقت عرب میں لکھنے پڑھنے کا رواج نہ تھا، چنانچہ جب آنحضرت ﷺ مبعوث ہوئے تو قبیلہ قریش میں صرف سترہ آدمی ایسے تھے جو لکھنا جانتے تھے، حضرت عمرؓ نے اسی زمانہ میں لکھنا اور پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ (تاریخ الخلفاء)

حضرت عمرؓ کے فرامین، خطوط، اور خطبے اب تک کتابوں میں محفوظ ہیں، ان سے ان کی قوت تحریر، برجستگی کلام اور زور تحریر کا اندازہ ہو سکتا ہے، بیعت خلافت کے بعد جو خطبہ دیا اس کے چند فقرے یہ ہیں:

"اللہم انی غلیظ فلینی، اللہم انی ضعیف فقونی الاوان العرب جمل انف وقد اعطیت خطامہ الاوانی حاملہ علی المحجۃ"۔

"اے خدا میں سخت ہوں تو مجھ کو نرم کر، میں کمزور ہوں مجھ کو قوت دے، ہاں عرب والے سرکش اونٹ ہیں جن کی مہار میرے ہاتھ میں دیدی گئی ہے، لیکن میں ان کو راستہ پر چلا کر چھوڑوں گا"۔

قوت تحریر کا اندازہ اس خط سے ہو سکتا ہے جو حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کے نام لکھا گیا تھا، اس کے چند فقرے یہ ہیں: اما بعد فان القوۃ فی العمل ان لا توخروا عمل الیوم لغد فانکم اذا فعلتم ذلک قدارکت علیکم اعما لکم فلم تدروا ایھاتا خذون فاضعتم" اما بعد! مضبوطی عمل کی یہ ہے کہ آج کا کام کل پر نہ چھوڑو، ایسا کروگے تو تمہارے بہت سے کام جمع ہو جائیں گے، پھر پریشان ہو جاؤ گے کہ کس کو کریں اور کس کو چھوڑیں، اس طرح کچھ بھی نہ ہو سکے گا"۔

فصاحت و بلاغت کا یہ حال تھا کہ ان کے بہت سے مقولے ضرب المثال بن گئے جو آج بھی عربی ادب کی جان ہیں، علم الانساب میں بھی یدطولیٰ حاصل تھا، یہ علم کئی پشتوں سے ان کے خاندان میں چلا آتا تھا، ان کے والد خطاب مشہور نساب تھے، جاحظ نے لکھا ہے کہ جب وہ انساب کے متعلق کچھ بیان کرتے تھے تو اپنے باپ کا حوالہ دیتے تھے، (کتاب البیان ج 1 ص 117) معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ پہنچ کر عبرانی زبان بھی انہوں نے سیکھ لی تھی۔ (مسند دارمی: 26)

عمرؓ فطرۃ ذہین طباع، اور صائب الرائے تھے، اصابت رائے کی اس سے زیادہ اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ ان کی بہت سی رائیں مذہبی احکام بن گئیں، اذان کا طریقہ ان کی رائے کے موافق ہوا، اسیران بدر کے متعلق جو رائے انہوں نے دی وحی الٰہی نے اسی کی تائید کی، شراب کی حرمت، ازواج مطہراتؓ کے پردہ اور مقام ابراہیم کو مصلی بنانے کے متعلق عمرؓ نے نزول وحی سے پہلے رسول مقبول ﷺ کو رائے دی تھی۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 12)

آپ کو بارگاہ نبوتؐ میں جو خاص تقرب حاصل تھا، اس کے لحاظ سے ان کو شرعی احکام اور عقائد سے واقف ہونے کا زیادہ موقع ملا، طبیعت نکتہ رس واقع ہوئی تھی اس لیے آئندہ نسلوں کے لیے اجتہاد اور استنباط مسائل کی وسیع شاہراہ قائم کر دی، وہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بھی شرعی مسائل پر غور و فکر کیا کرتے تھے اور جب کوئی مسئلہ خلاف عقل معلوم ہوتا تو اس کو آپ ﷺ سے دریافت کیا کرتے تھے۔

سفر میں قصر کا حکم دے دیا گیا تھا، لیکن جب راستے مامون ہو گئے تو عمرؓ نے دریافت کیا کہ اب سفر میں یہ حکم کیوں باقی ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ خدا کا انعام ہے"۔ مسائل دریافت کرنے میں مطلقاً پس و پیش نہیں کرتے تھے اور جب تک تشفی نہ ہو جاتی ایک ہی مسئلہ کو بار بار رسول اللہ ﷺ سے دریافت کرتے تھے، نہایت غور و توجہ کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کرتے تھے، ہر ایک آیت پر مجتہدانہ حیثیت سے نگاہ ڈالتے تھے، قرآن مجید سے استدلال میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔

حضرت عمرؓ کی مرفوع روایات کی تعداد ستر کے قریب ہیں۔ سیدنا عمرؓ سے اس قدر فقہی مسائل منقول ہیں کہ اگر جمع کیے جائیں تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے، استنباط احکام اور تفریع مسائل کے لیے بھی انہوں نے ایک شاہراہ قائم کر دی تھی، مختلف فیہ مسائل کے طے کرنے کے لیے اجماع صحابہ جس کثرت سے عمرؓ کے عہد میں ہوئے، پھر نہیں ہوئے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سیدنا فاروق اعظمؓ پر خصوصی فضل و کرم فرمائے۔ اور اپنے شایان شان ان کے درجات بلند فرمائے۔

Check Also

Thanda Mard

By Tahira Kazmi