Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Noor Hussain Afzal/
  4. Hazrat Abu Bakr Siddiq (20)

Hazrat Abu Bakr Siddiq (20)

حضرت ابوبکر صدیق (20)

حضرت ابو بکر صدیقؓ موزوں قد کے دبلے پتلے آدمی تھے۔ رنگ گندمی(بروایت دیگر گوری رنگت) تھی۔ رخساروں پر بہت کم گوشت تھا، اور چہرے کی ہڈیاں نمایاں تھیں۔ پیشانی بلند اور کشادہ تھی۔ انگلیوں کے جوڑوں پر گوشت نہیں تھا۔ پنڈلیوں اور رانوں پر بھی بہت کم گوشت تھا۔ بالوں میں مہندی اور کسم (کثم) کا خضاب لگاتے تھے۔

بقول امام زہری بال گھنگرالے تھے۔ آواز پرسوز تھی، اور بہت کم گو تھے۔ انداز گفتگو بہت سنجیدہ اور متعین تھا، جس میں محویت کی شان ہوتی تھی۔ ساٹھ سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی بہت بوڑھے معلوم ہوتے تھے۔

(1) لباس و غذا:

لباس نہایت سادہ اور معمولی ہوتا تھا۔ غذا بھی بہت سادہ تھی۔ بہت مرفہ الحال تھے، لیکن جو کچھ کماتے، بےدریغ راہ حق میں خرچ کرتے تھے۔ اس لیے ہجرت کے بعد کبھی کبھار فاقہ تک نوبت پہنچ جاتی تھی۔ خلافت کے بعد حضرت ابو بکر صدیقؓ کی سادگی میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔ بعض اوقات دو چادریں زیب تن ہوتی تھیں، ایک باندھے ہوئے ایک اوڑھے ہوئے۔ وفات سے قبل ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے فرمایا: "جب سے خلافت کا بوجھ میرے کندھوں پر پڑا ہے، میں نہایت معمولی غذا اور موٹے جھوٹے کپڑے پر قانع رہا ہوں، اس وقت میرے پاس ایک حبشی غلام، ایک اونٹ اور ایک پرانی چادر کے سوا بیت المال کی کوئی چیز نہیں۔ میرے بعد یہ چیزیں حضرت عمر بن خطابؓ کے حوالے کر دینا۔

(2) انگوٹھی:

حضرت ابو بکر صدیقؓ ایک سادہ انگوٹھی پہنتے تھے، اس پر یہ عبارت کندہ تھی، "نعم القادر اللہ" مکتوبات، فرامین اور معاہدات پر مہر کرنے کے لیے یہ انگوٹھی استعمال نہیں فرماتے تھے۔

(3) ذریعہ معاش:

حضرت ابو بکر صدیقؓ شروع سے ہی کپڑے کے بہت بڑے تاجر تھے۔ آپ ایک کامیاب اور خوشحال تاجر تھے۔ اس سلسلے میں اندرون ملک اور بیرون ملک(شام، یمن وغیرہ) سفر کرتے رہتے تھے۔ اپنی خوش معاملگی اور دیانت داری کی وجہ سے قریش کے تمام تاجروں میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔

سنن ابن ماجہ میں آپؓ سے روایت ہے: "میں قریش میں سب سے بڑا اور مال دار تاجر تھا"۔

قبول اسلام کے بعد بھی تجارت ہی آپؓ کا ذریعہ معاش رہا۔ اپنے تجارتی اسفار کی بدولت وہ عرب میں خاصے مشہور ہو گئے تھے۔ خوب کماتے تھے، اور راہ حق میں بھی خوب خرچ کرتے تھے۔ ہجرت مدینہ ان کی مالی حالت قدرے کمزور ہوگئی تھی، لیکن جلد ہی اللہ تعالی نے ان کی مالی حالت مستحکم کردی۔

(4) جاگیر:

رسول اکرمﷺ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو خیبر اور بحرین میں ایک ایک جاگیر عطا فرمائی۔ انہوں نے بحرین کی جاگیر حضرت عائشہ صدیقہؓ کو دے دی تھی، لیکن اپنی وفات کے وقت ان سے واپس لے لی، تا کہ سب بہن بھائیوں کو شرعی حصہ مل سکے۔ تین ہجری میں یہود بنی نضیر مدینہ سے جلا وطن کیے گئے، تو رسالت مآبﷺ نے ان کے اموال سے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو بئر حجر عنایت فرمایا۔ آپ نے اس کی ملحقہ زمین میں کھجور کا باغ لگایا، اور پھر یہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کو دے دیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو جاگیروں سے جو آمدنی حاصل ہوتی تھی، اس کو بھی راہ خدا میں صرف کر دیتے تھے۔

(5) وظیفہ خلافت

حضرت ابو بکر صدیقؓ خلیفہ بننے کے بعد دوسرے دن کندھے پر کپڑوں کے تھان ڈال کر بیچنے کے لیے بازار کی طرف چلے۔ راستے میں حضرت عمرفاروقؓ مل گئے۔ پوچھا امیرالمومنین کہاں جا رہے ہیں؟ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا، بازار کپڑے بیچنے جا رہا ہوں۔ حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا، آپ اب مسلمانوں کے معاملات دیکھیں گے، یا تجارت کریں گے؟ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا، اگر یہ کام نہیں کروں گا، تو خود کیا کھاؤں گا، اور بال بچوں کو کہاں سے کھلاؤں گا؟ حضرت عمر فاروقؓ نے عرض کیا، اب آپ پر مسلمانوں کی سرداری کا بوجھ آپڑا ہے۔ خلافت اور تجارت کے کام ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ چلئے حضرت ابو عبیدہ ابن جراحؓ (ناظم بیت المال) سے مل کر بات کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عمر فاروقؓ انہیں حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ کے پاس لے گئے، اور کفیت بیان کی۔ انہوں نے اس مقدار میں وظیفہ مقرر کیا جو ایک اوسط درجہ مہاجر کی ضروریات زندگی کو کفایت کر سکے۔ (سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا ابو بکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 323 تا 328)

Check Also

Insaan Rizq Ko Dhoondte Hain

By Syed Mehdi Bukhari