Dubai Mall, Dunya Ka Sab Se Bara Tijarti o Tafreehi Markaz
دبئی مال، دنیا کا سب سے بڑا تجارتی و تفریحی مرکز

ریگستانوں کی دھرتی پر کبھی کسی نے سوچا بھی نہ تھا، کہ ایک ایسا مقام تخلیق ہوگا، جو تجارت، سیاحت، فن، تفریح اور ثقافت کا سنگم ہوگا۔ دبئی مال، جسے دنیا کا سب سے بڑا مال کہا جاتا ہے، آج نہ صرف متحدہ عرب امارات کی پہچان ہے، بلکہ پوری دنیا میں جدید تعمیرات اور معاشی ترقی کی ایک زندہ شاہکار بن چکا ہے۔
ہم شارجہ سے اپنے اہل خانہ کے ساتھ روانہ ہوئے۔ میرے ساتھ میرے بیٹے یحییٰ نور اور بیٹی طیبہ نور اور میری عزیزہ زوجہ بھی تھیں۔ سفر کے دوران بچوں کے دلوں میں ایک ہی سوال تھا۔
"بابا، کیا واقعی دبئی مال اتنا بڑا ہے، کہ دنیا بھر کے لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں؟"
میں نے مسکراتے ہوئے کہا
"بیٹا، آج آپ اپنی آنکھوں سے دیکھو گے کہ خواب جب حقیقت میں ڈھلیں تو کیسے معجزہ بن جاتے ہیں۔ " تقریباً پچاس منٹ کی ڈرائیو کے بعد جیسے ہی ہماری گاڑی شیخ زائد روڈ سے مال کے قریب پہنچی، تو سامنے دنیا کی سب سے اونچی عمارت برج خلیفہ اور اس کے دامن میں دبئی مال کا حسین نظارہ دل کو موہ لینے لگا۔
دبئی مال کی تعمیر کی کہانی بھی کسی افسانے سے کم نہیں۔ اس منصوبے کا آغاز 2004 میں ہوا اور محض چار سال کی مسلسل محنت کے بعد اسے 4 نومبر 2008ء کو شاندار تقریب کے ساتھ عوام کے لیے کھولا گیا۔ یہ مال 12 ملین اسکوائر فٹ پر پھیلا ہوا ہے، جس میں سے تقریباً 55 لاکھ اسکوائر فٹ صرف ریٹیل اسپیس پر مشتمل ہے۔ یہاں پر 1200 سے زائد دکانیں ہیں اور یہ تعداد کسی بھی دوسرے مال کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔
جب ہم اندر داخل ہوئے، تو بچوں کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ گئیں۔ فاطمہ نور نے کہا۔
"یہ تو ایک نیا شہر لگ رہا ہے، صرف ایک مال نہیں۔ " واقعی، دبئی مال ایک ایسا شہر لگتا ہے، جو اپنی وسعت اور تنوع میں بے مثال ہے۔ یہاں نہ صرف دنیا کے بڑے برانڈز موجود ہیں، بلکہ آرٹ گیلریز، ریسٹورنٹس، کیفے اور تفریحی مراکز بھی ہیں، جو ہر عمر کے افراد کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔
دبئی مال کا سب سے مشہور مقام اس کا دبئی ایکویریم اینڈ انڈر واٹر زو ہے۔ یہ ایکویریم 2008ء ہی میں دنیا کے سب سے بڑے ایکویریم کے طور پر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں شامل ہوا۔ یہاں بہت بڑی تعداد میں سمندری جاندار ہیں، جن میں شارک اور ریز بھی شامل ہیں۔ میرے بیٹے یحییٰ نور اس بڑے ایکویریم کے سامنے کھڑے ہو کر بار بار حیرت سے کہتے رہے۔ "بابا، یہ سب واقعی اصلی مچھلیاں ہیں؟" جبکہ محمد ریان نور تو شارک کو دیکھ کر خوشی محسوس کر رہا تھا۔
اس کے علاوہ دبئی مال میں اولمپک سائز آئس رِنک بھی موجود ہے، جو سردیوں کی برفانی دنیا کو صحراؤں کے دل میں لے آتا ہے۔ طیبہ نور وہاں کھڑی خوشی سے تالیاں بجاتی رہیں اور کہتی رہیں، کہ یہ تو جادو ہے۔ میری زوجہ ام ریان نے تب مسکرا کر کہا، "دیکھو دبئی نے دنیا کو دکھا دیا، کہ محنت اور خواب مل کر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ "
مال کی ایک اور بڑی خصوصیت دبئی فاؤنٹین ہے جو برج خلیفہ کے دامن میں واقع ہے۔ یہ فاؤنٹین 2009ء میں مکمل ہوا اور روزانہ ہزاروں لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں۔ پانی کے فوارے جب روشنیوں اور موسیقی کے ساتھ رقص کرتے ہیں، تو دلوں کی دھڑکنیں بھی اس کے سنگ ہم آہنگ ہو جاتی ہیں۔ ہم نے بھی یہ منظر قریب سے دیکھا اور ایسا لگا جیسے پوری کائنات رنگوں اور روشنیوں میں نہا گئی ہو۔
دبئی مال کی سالانہ سیاحتی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے، کہ 2019 میں یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد 8 کروڑ (80 ملین) سے تجاوز کر گئی۔ یہ تعداد پیرس اور نیویارک جیسے شہروں میں آنے والے سیاحوں سے بھی کہیں زیادہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دبئی مال کو دنیا کی معاشی اور سیاحتی سرگرمیوں کا دل کہا جاتا ہے۔
دبئی مال محض خریداری کی جگہ نہیں، بلکہ ایک تعلیمی اور ثقافتی مرکز بھی ہے۔ یہاں بچوں کے لیے کڈزینیا نامی ایک انٹرایکٹو ایجوکیشنل سینٹر ہے، جہاں بچے مختلف پیشوں کو کھیل کھیل میں سیکھتے ہیں۔ یحییٰ نور نے ڈاکٹر بننے کا کھیل کھیلا، جبکہ فاطمہ نور نے اسکول پرنسپل کا رول ادا کیا اور ہم سب کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھر گئیں۔
یہ سب دیکھ کر میں سوچتا رہا، کہ جب شیخ محمد بن راشد المکتوم نے دبئی کو عالمی سطح پر روشنیوں کا مرکز بنانے کا خواب دیکھا تھا، تو شاید دبئی مال ہی اس خواب کی سب سے حسین تعبیر ہے۔ یہ صرف ایک عمارت نہیں، بلکہ ایک نظریہ، ایک سوچ ہے، کہ محنت اور وژن سے کچھ بھی ممکن ہے۔
آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا، کہ دبئی مال ایک ایسا مقام ہے، جہاں ہر شخص کو اپنی دلچسپی کے مطابق کچھ نہ کچھ ضرور ملتا ہے۔ چاہے وہ خریداری کا شوقین ہو، تفریح چاہتا ہو، یا صرف حیرت انگیز مناظر دیکھنے آیا ہو۔ یہ مال دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ صحرا بھی اگر چاہے، تو اپنی ریت کے ذروں کو روشنیوں کے نگینوں میں بدل سکتا ہے۔
دبئی مال یہ وہ جگہ ہے، جہاں خواب حقیقت بنتے ہیں اور حقیقتیں خوابوں سے بھی حسین لگتی ہیں۔

