Doha Summit Elamia (3)
دوحہ سمٹ اعلامیہ (3)

قطر دوحہ سمٹ کے اجلاس میں سب سے پہلے عرب اور اسلامی ممالک کو مشترکہ سفارتی اقدامات اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ یہ اقدامات نہ صرف قطر کی حمایت کے لیے بلکہ مشرقی وسطی میں امن و سلامتی کے قیام کے لیے لازمی ہیں۔ اجلاس میں واضح کیا گیا، کہ ہر رکن ملک اپنی سرحدوں کی حفاظت، شہریوں کی سلامتی اور بنیادی ڈھانچے کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا اور کسی بھی جارحیت کو مؤثر طریقے سے روکنے کے لیے تعاون کرے گا۔
اجلاس کے دوران متاثرہ علاقوں میں فوری امدادی کام کے آغاز پر اتفاق کیا گیا، تاکہ زخمی افراد کو طبی امداد فراہم کی جا سکے، بچوں اور خواتین کو تحفظ ملے اور بنیادی ضروریات بروقت پہنچائی جا سکیں۔ رکن ممالک نے اپنے وسائل کو مربوط کرنے کا بھی عزم کیا، تاکہ متاثرہ عوام کو خوراک، پانی، صحت کی سہولتیں اور ہنگامی رہائش بروقت فراہم کی جا سکے۔
انسانی ہمدردی اور امدادی کاموں کی اہمیت پر زور دیا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ مستقبل میں ہنگامی رابطہ کمیٹی قائم کی جائے گی، جو فوری طور پر تمام رکن ممالک کو صورتحال سے آگاہ کرے اور مشترکہ اقدامات کی منصوبہ بندی کرے۔ اجلاس نے بین الاقوامی برادری کے ساتھ مستقل رابطے کی ضرورت پر بھی زور دیا اور میڈیا و عوامی آگاہی کے ذریعے خطے کی صورتحال کی شفاف رپورٹنگ کو اہم قرار دیا، تاکہ جھوٹی یا مبالغہ آمیز خبریں پھیلنے سے روکا جا سکے اور عالمی برادری کو حقیقی حقائق کا علم ہو۔
اجلاس میں عالمی طاقتوں پر واضح کیا گیا، کہ اس خطے کے عوام کی حفاظت، انسانی حقوق اور امن قائم رکھنے کے لیے عرب اور اسلامی ممالک ایک مضبوط، متحد اور غیر متزلزل موقف اختیار کر چکے ہیں۔ جارحیت کرنے والے کو یہ پیغام دیا گیا، کہ اس کے اقدامات کے نتائج ہر سطح پر محسوس ہوں گے، چاہے وہ فوجی ہوں یا اقتصادی اور اس کی بدولت آنے والے وقتوں میں حالات تبدیل ہو سکتے ہیں۔
دوحہ سمٹ کا اعلامیہ یہاں مکمل ہوگیا ہے۔
(اس سمٹ کا یہ اعلامیہ تین اقساط میں من و عن بغیر کسی تبدیلی یا اضافے کے راقم الحروف نے آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے)۔
شرکاء میں قطر کی طرف سے شیخ تمیم بن حمد آل ثانی، سعودی عرب سے شیخ محمد بن سلمان آل سعود، متحدہ عرب امارات سے شیخ منصور بن زاید آل نہیان اور شیخ عبداللہ بن زاید آل نہیان، ترکی سے صدر رجب طیب اردوان، ایران سے صدر مسعود پزشکیاں، عراق سے وزیرِ اعظم محمد شیاع السودانی، پاکستان سے وزیرِ اعظم شہباز شریف، مصر سے صدر عبدالفتاح السیسی، اردن سے صدر عبداللہ دوم، شام سے صدر بشار الاسد، سوڈان سے صدر عمر البشیر، اقوام متحدہ سے انتونیو گوتریس، یورپی یونین سے اورسولا فن ڈیر لین شامل تھے۔ دیگر متعدد بین الاقوامی رہنما بھی اجلاس میں شریک ہوئے اور عالمی سطح پر امن و استحکام کے لیے اہم فیصلے کیے گئے۔
مشرق وسطیٰ کے اہم ممالک، جن میں متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، قطر اور عمان، عالمی معیشت اور استحکام میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہاں تقریباً دو سو ممالک کے لوگ اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور اپنی فیملیز کو زرِ مبادلہ بھیجتے ہیں، جس سے وہ اپنے وطن میں سکون اور خوشحالی حاصل کرتے ہیں۔ یہ ممالک امن، مضبوط قوانین اور مستحکم معاشرتی ڈھانچے کی بدولت سرمایہ کاری، توانائی، سیاحت اور تجارت کے مراکز ہیں۔ اگر یہ ممالک مضبوط اور محفوظ رہیں گے، تو یہاں کام کرنے والے اور ان کے اہل خانہ بھی خوشحال اور محفوظ زندگی گزاریں گے اور اس استحکام کا اثر پوری دنیا پر پڑے گا۔
یہ اجلاس اس بات کا بھی عملی ثبوت ہے، کہ عرب اور اسلامی ممالک انسانی ہمدردی، اقتصادی اور سیاسی ذرائع اور بین الاقوامی تعاون کے ذریعے مظلوم عوام کی حمایت اور امن و امان کے قیام میں اپنی مضبوط اور واضح پوزیشن رکھتے ہیں۔
مشرقی وسطیٰ کے یہ ممالک ہمیشہ عالمی برادری کے لیے روشن مثال رہے ہیں۔ چاہے وہ مسلمان ہوں یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، قدرتی آفات یا انسانی بحران کے وقت انہوں نے بڑھ چڑھ کر مدد فراہم کی، فوری امدادی سامان بھیجا اور متاثرہ عوام کی بحالی میں کردار ادا کیا۔ ان کی وسیع ظرفی اور انسانیت پسندی نے دنیا کے مختلف خطوں میں امید، امن اور انسانیت کے لیے اہم خدمات انجام دی ہیں اور دنیا کا ایک بڑا خطہ ان کی خدمات کی روشن دلیل ہے، اللہ کرے پوری دنیا امن چین اور سکون کے ساتھ تا قیامت تابندہ رہے۔

