Climate Change Aur Insaniyat Ka Mustaqbil
کلائمنٹ چینج اور انسانیت کا مستقبل

گزشتہ چند دہائیوں میں دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی ایک نہایت سنجیدہ اور پیچیدہ مسئلہ بن کر ابھری ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ، گلیشیئرز کے پگھلنے، سمندری سطح کے بلند ہونے اور غیر متوقع بارشوں کے نظام نے انسانی زندگی کو براہِ راست متاثر کیا ہے۔ اگرچہ ماہرینِ ماحولیات کئی برسوں سے اس خطرے کی نشاندہی کرتے آئے ہیں، لیکن بدقسمتی سے حکومتیں اور معاشرے اس مسئلے کو وہ توجہ نہیں دے پائے، جو اس کی شدت کے لحاظ سے لازمی تھی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی نہ صرف ترقی پذیر ممالک، بلکہ ترقی یافتہ ریاستوں کے لیے بھی لمحہ فکریہ بن چکی ہے۔
دنیا کے بڑے سائنسی ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسز کے اخراج نے زمینی ماحول کو تیزی سے بدل دیا ہے۔ صنعتی ترقی، جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور حیاتیاتی ایندھن پر انحصار نے زمین کی فضا کو غیر متوازن بنا دیا ہے۔ مثال کے طور پر "پیرس معاہدہ" (2015ء) اس حوالے سے ایک اہم سنگِ میل سمجھا جاتا ہے، جس میں 196 ممالک نے یہ عہد کیا کہ وہ درجہ حرارت کو 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ بڑھنے نہیں دیں گے، لیکن افسوس کہ بیشتر ریاستیں اب تک اپنے وعدے پر عملدرآمد کرنے میں ناکام ہیں۔
پاکستان جیسے ممالک کے لیے یہ مسئلہ اور بھی زیادہ سنگین ہے۔ سیلاب، خشک سالی، غیر متوقع بارشیں اور شدید گرمی کی لہریں ہمارے ملک کے زرعی نظام کو براہِ راست متاثر کر رہی ہیں۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب نے اس حقیقت کو ایک بار پھر اجاگر کیا، کہ ہم ماحول کے کسی بھی معمولی تغیر کے لیے کس قدر غیر تیار ہیں۔ اسی طرح افریقہ کے کئی ممالک میں قحط اور غذائی قلت براہِ راست موسمیاتی تبدیلی کی پیداوار ہیں۔ یہ سب واقعات ہمیں اس بات پر غور کرنے پر مجبور کرتے ہیں، کہ اگر اب بھی ہم نے اجتماعی طور پر عملی اقدامات نہ کیے، تو آنے والی نسلوں کے لیے زمین کو محفوظ رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔
اسلامی تعلیمات میں بھی ماحول کے تحفظ پر بارہا زور دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے "اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ، بےشک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا" (القصص: 77)
اس آیتِ مبارکہ سے واضح ہوتا ہے، کہ ماحول کو آلودہ کرنا، قدرتی وسائل کو ضائع کرنا اور زمین کو غیر متوازن بنانا ایک ایسا عمل ہے، جو براہِ راست انسانی بقا کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے بھی پانی کے ضیاع سے منع فرمایا، حتیٰ کہ وضو کے دوران بھی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام ماحول دوست مذہب ہے، جو انسان کو اعتدال اور توازن کا پیغام دیتا ہے۔
اگر ہم اپنی معاشرتی اور انفرادی زندگی میں چھوٹے چھوٹے اقدامات کریں، مثلاً درخت لگائیں، توانائی کے وسائل کو کفایت سے استعمال کریں، پلاسٹک کے بے جا استعمال کو ترک کریں اور فضا کو آلودہ کرنے والے عوامل کو کم کریں، تو یقیناً ہم اس عالمی مسئلے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے، کہ بین الاقوامی سطح پر بڑی طاقتوں کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی۔ ترقی پذیر ممالک اکثر وہ نتائج بھگتتے ہیں، جن کے اسباب میں ان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔
آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا، کہ موسمیاتی تبدیلی صرف ایک سائنسی یا ماحولیاتی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ایک اخلاقی، دینی اور انسانی فریضہ ہے، کہ ہم زمین کو آئندہ نسلوں کے لیے بہتر حالت میں چھوڑ کر جائیں۔ اگر آج ہم نے عملی اقدامات نہ کیے، تو آنے والا کل ہمیں معاف نہیں کرے گا۔

