Al Maktoom Airport Ki Kahani
المکتوم ایئرپورٹ کی کہانی

دبئی کی دھرتی خوابوں کی سرزمین ہے۔ کبھی یہی ریگستان اپنی تپتی ریت کے باعث گزرگاہِ قافلہ تھا، جہاں زندگی کے وسائل محدود اور امیدیں مدہم تھیں۔ مگر آج یہی سرزمین دنیا کے نقشے پر روشنی کا مینار بن کر ابھری ہے۔ ہر نیا دن یہاں ایک نئی تاریخ رقم کرتا ہے اور ہر نیا منصوبہ گزشتہ معجزے کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ برج خلیفہ کی بلندی، پام جمیرا کی وسعت اور شاہراہوں کی چمک ابھی تازہ ہی تھی، کہ دبئی نے ایک اور خواب کا اعلان کیا، ایسا خواب جو صدیوں تک دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول رکھے گا۔ یہ خواب ہے المکتوم انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی توسیع، جس کا سنگِ بنیاد سنہ 2010ء میں رکھا گیا اور جسے شیخ محمد بن راشد المکتوم نے اپنی بصیرت اور بلند حوصلگی سے دنیا کے سامنے پیش کیا۔
یہ ایئرپورٹ دبئی ورلڈ سنٹرل کے علاقے میں واقع ہے، جس کا رقبہ تقریباً 56 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ ابتدائی مرحلے میں اس کی بنیادی تعمیر مکمل کی گئی اور پھر سنہ 2024ء میں دبئی حکومت نے اس کے دوسرے مرحلے کا اعلان کیا۔ یہ مرحلہ نہ صرف تعمیراتی حجم بلکہ مالیاتی پہلو سے بھی ایک سنگ میل ہے، کیونکہ اس پر مجموعی طور پر 35 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔ منصوبے کے مطابق یہاں پانچ رن ویز تعمیر ہوں گے، جن کی لمبائی 4.5 کلومیٹر ہوگی اور وہ اتنے فاصلے پر بنائے جائیں گے، کہ بیک وقت پانچ طیارے پرواز یا لینڈنگ کر سکیں۔ مزید برآں، یہاں چار سو گیٹس تیار کیے جائیں گے، تاکہ دنیا کی سب سے بڑی فضائی کمپنیوں کے بیڑے بھی سہولت کے ساتھ یہاں قیام کرسکیں۔
اندازہ ہے کہ جب یہ منصوبہ سنہ 2030ء تک مکمل ہوگا، تو یہ دنیا کا سب سے بڑا ایئرپورٹ بن جائے گا، جو سالانہ 260 ملین مسافروں کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھے گا۔ آج دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ دنیا کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں شامل ہے، جو تقریباً 90 ملین مسافروں کو سالانہ خدمات فراہم کرتا ہے۔ اس نئے منصوبے کے بعد یہ گنجائش تقریباً تین گنا بڑھ جائے گی۔
یہ ایئرپورٹ محض دبئی یا متحدہ عرب امارات کی ضرورت نہیں، بلکہ پوری دنیا کی سفری اور تجارتی سرگرمیوں کے لیے ایک نئی روح ثابت ہوگا۔ عالمی معیشت میں اس کے اثرات ناقابلِ فراموش ہوں گے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق، منصوبے کی تکمیل کے بعد لاکھوں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور دبئی کی سیاحت، جو پہلے ہی سالانہ 1.8 کروڑ افراد کو اپنی جانب کھینچ رہی ہے، کئی گنا بڑھ جائے گی۔ یوں یہ ایئرپورٹ نہ صرف ایک فضائی مرکز بلکہ معاشی ترقی کا محور بھی ہوگا۔
یہ منصوبہ دبئی کے اس عزم کا جیتا جاگتا ثبوت ہے، جسے شیخ محمد بن راشد المکتوم نے اپنے الفاظ میں بیان کیا تھا:
"ہمارے خواب کبھی چھوٹے نہیں ہوتے، اگر تمہارے خواب چھوٹے ہیں تو بہتر ہے کہ نئے خواب دیکھو۔ " یہی خواب آج ایک حقیقت کے روپ میں پوری دنیا کے سامنے ہے۔
شاعر کے مطابق:
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
یہ مصرعہ دبئی پر صادق آتا ہے، یہاں کی ریگزار مٹی کو اگر خوابوں کا پانی مل جائے، تو وہ معجزے اُگا دیتی ہے۔ برج خلیفہ، پام جمیرا اور اب المکتوم انٹرنیشنل ایئرپورٹ اسی معجزاتی تسلسل کی کڑیاں ہیں۔
دبئی کے اس منصوبے کی ایک اور خصوصیت یہ ہے، کہ یہ تین براعظموں، ایشیا، یورپ اور افریقہ کے سنگم پر واقع ہوگا، یوں یہ عالمی تجارت، سیاحت اور ترسیل کا دل ثابت ہوگا۔ سنہ 2010ء سے شروع ہونے والا یہ سفر، جو سنہ 2030ء تک جاری رہے گا۔ دراصل عرب دنیا کی ترقی، خود اعتمادی اور مستقبل بینی کی روشن علامت ہے۔
جب یہ ایئرپورٹ اپنی مکمل شان کے ساتھ تیار ہوگا، تو دنیا دیکھے گی کہ دبئی صرف ایک شہر نہیں بلکہ ایک علامت ہے، حوصلے، خواب اور محنت کی علامت۔ یہ وہ مقام ہوگا جہاں ہر پرواز ایک نئی کہانی کہے گی اور ہر مسافر اس خوابوں کی سرزمین سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہے گا۔

