Aalmi Abadi 8 Arab, Iqdamat o Tajaweez
عالمی آبادی 8 ارب، اقدامات و تجاویز
دنیا کی آبادی آٹھ ارب تک پہنچ گئی ہے۔ عالمی آبادی کو 2011ء کی 7 ارب کی سطح سے اب 8 ارب تک پہنچانے والے نصف لوگ ایشیاء میں رہتے ہیں۔ پاکستان عالمی آبادی کے تقریباً تین فیصد حصے کا حامل ہے، جہاں آبادی میں اضافے کی سالانہ شرح 1 سے 9 فیصد ہے۔ پاکستان میں ایک عورت کے ہاں اوسطََ 3 سے 6 بچے پیدا ہوتے ہیں۔ پاکستان ان آٹھ ممالک میں شامل ہے، جہاں 2050ء تک عالمی آبادی میں اضافے کا نصف سے زیادہ حصہ مرتکز ہو گا۔ ان ممالک میں جمہوریہ کانگو، مصر، ایتھوپیا، بھارت، نائیجیریا، فلپائن اور متحدہ جمہوریہ تنزانیہ شامل ہیں۔
آٹھ ارب کا ہندسہ عالمِ انسانیت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ یہ پاکستان کے لیے موقع ہے کہ وہ اپنی آبادی میں اضافے کی سمت سے قطع نظر، صورت حال کا جائزہ لے کر اس سلسلے میں اقداما ت کا آغاز کرے۔ صرف آبادی کے ہندسوں پر توجہ مرکوز کرنے سے مکمل صورت حال کا درست اندازہ نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا یہ اعداد و شمار سے آگے دیکھنے اور تحقیق پر مبنی فیصلے کرنے کا وقت ہے۔ آبادیاتی مسائل کا حل لوگوں کی کم یا زیادہ تعداد نہیں، بلکہ ان کو مواقع تک بہتر اور مساوی رسائی فراہم کرنا ہے۔
اگرچہ 8 ارب کی آبادی والے عالمی خاندان نے بہتر نظام صحت کے قیام، غربت کے خاتمے اور زچگی کی اموات میں کمی کے ساتھ فلاح و بہبود اور ترقی کے میدان میں ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ مگر اس پیش رفت سے سب لوگ یکساں طور پر لطف اندوز نہیں ہو سکے ہیں۔ پاکستان کے صوبوں اور خطوں میں اب بھی وسیع پیمانے پر سماجی و اقتصادی عدم مساوات پائی جاتی ہیں۔ آبادی کے تمام گروہوں کے لیے صحت کی سہولیات، حقوق، اور بہتر معیارِ زندگی تک یکساں رسائی نہیں ہے۔
اس صورت حال میں ایک آفاقی سبق موجود ہے کہ وہ معاشرے جو اپنے لوگوں کے حقوق اور انہیں انتخاب کا اختیار فراہم کرنے میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، وہ خوشحالی اور امن کی اس راہ پر چلتے ہیں، جو ہر کسی کی ضرورت اور حق ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کی بہتری کو تمام امور میں ترجیح حاصل ہونی چاہیے۔ ان کی تولیدی صحت، حقوق، تعلیم و ہنر اور روزگار کو مقدم رکھنا چاہیے، تاکہ ملک خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ اس لیے ضرور ی ہے کہ ہر خاتون کو خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات، زچگی کی معیاری دیکھ بھال اور مناسب معلومات تک رسائی دی جائے۔
پاکستان میں یو این ایف پی کے نامزد سربراہ، لوئے شبانے نے اپنے تبصرہ میں کہا، "انتخاب کی طاقت آبادیاتی اور ترقیاتی اشاریوں کو قدرتی طور پر صحیح سمت میں موڑ سکتی ہیں۔ ہم اپنے خاندانی منصوبہ بندی کی مہمات کو حقوق اور آگہی، خدمت اور معاشرتی روایات پر استوار کر کے معاشی ترقی کے منظر نامے کو تبدیل کر سکتے ہیں، تاکہ فلاح و بہبود کے نظام اور قدرتی وسائل کی پائیدار دستیابی کو یقینی بنایا جا سکے۔ "
پاکستان کا آبادی کے حوالے سے قومی بیانیہ حقوق، ذمہ داری اور توازن کے تین باہم مربوط اصولوں پر استوار ہے، جس نے ملک کے لیے ایک درست سمت کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے، کہ خاندانی منصوبہ بندی کے نظام کو باخبر انتخاب کے ذریعہ چلایا جانا چاہئے اور اس کے ساتھ یہ بیانیہ تمام شہریوں کی معلومات اور خدمات تک رسائی کے حقوق کی فراہمی کی ریاستی ذمہ داری کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ جو شہریوں کو باخبر انتخاب اور ان پر عمل کرنے میں مدد کرنے کے لیے ضروری ہے۔
پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں وفاقی اور صوبائی سطح پر آبادی کی پالیسی اور پروگرام کے تفصیلی روڈ میپ موجود ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو ان پالیسیوں اور پروگرامز پر عمل درآمد کو تیز کرنے کے لئے تعاون کرنا ہو گا، تاکہ یقینی بنایا جا سکے، کہ پیدائش کے وقت زچہ و بچہ کی جان محفوظ ہوں۔ شہری کی صلاحیتوں سے ریاست بھرپور استفادہ کریں، ہر شخص کی مال، جان، عزت و آبرو محفوظ ہوں۔ اور جیسے جیسے آبادی بڑھتی رہے، ویسے ویسے ان کے لئے تمام سہولیات بہم پہنچانے کے انتظامات ہوتے رہیں۔