75 Saal Bad Hum Kahan Khare Hain
75 سال بعد ہم کہاں کھڑے ہیں
14 اگست وہ روشن دِن جب برصغیر پاک و ہند کے کروڑوں مُسلمانوں نے مردِ آہن حضرت قائدِ اعظمؒ کی بصیرت افروز قیادت میں ایک الگ خطّہ اراضی حاصل کیا، اور علامہ اقبالؒ کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔ 14اگست کو ہر پاکستانی، خواہ وہ دُنیا کے کسی بھی حصے میں قیام پذیر ہو، یوم آزادی بڑی عقیدت و احترام سے مناتا ہے۔ آزادی کا جشن صرف ہم ہی نہیں۔
بلکہ دُنیا کی بیشتر اقوام اِسی پُرجوش مُسرت و شادمانی سے مناتیں اور اپنی خوشی کا اظہار کرتیں ہیں۔ پاکستان کو ایک آزاد مملکت کے طور پر دُنیا کے نقشے پر ظاہر ہوئے 75 سال گُذر بیت چکے ہیں، لیکن اِس سوال کا جواب ضرور ڈھونڈنا چاہیے۔ کہ ہم نے پاکستان کیوں حاصل کیا؟ ہمیں کیوں ضرورت محسوس ہوئی کہ ہم ایک آزاد مُلک کی بُنیاد ڈالیں اور اپنے طرزِ زندگی کو اپنے انداز سے بسر کریں؟
ہم نے لاکھوں انسانوں کی قُربانی کیوں پیش کی کہ جس کے عوض ہمیں آزاد دھرتی مُیسر آئی؟ نظریہ پاکستان، پاکستان کے قیام کے کئی اغراض و مقاصد تھے۔ جن مین سے اٹھارہ پیش خدمت ہیں۔
1۔ اسلامی ریاست کے قیام کی خواہش
2۔ اسلامی معاشرے کا قیام
3۔ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا تحفظ
4۔ اسلامی جمہوری نظام کا نفاذ
5۔ دو قومی نظریہ کا تحفظ
6۔ اردو زبان کا تحفظ و ترقی
7۔ مسلم تہذیب و ثقافت کی ترقی
8۔ مسلمانوں کی آزادی
9 مسلمانوں کی معاشی بہتری
10۔ مسلمانوں کی سیاسی و معاشی ترقی
11۔ ہندوؤں کے تعصب سے نجات
12۔ کانگرس سے نجات
13۔ انگریزوں سے نجات
14۔ تاریخی ورثہ کی حفاظت
15۔ پر امن فضا کا قیام
16۔ پاکستان اسلام کا قلعہ
17۔ ملی و قومی اتحاد
18۔ اتحاد عالم اسلام
دو قومی نظریہ کیا ہے؟
قیام پاکستان کیلئے اٹھنے والی تحریک مسلمانوں کے قومی تشخص اور مذہبی ثقافت کے تحفظ کی وہ تاریخی جدوجہد تھی، جس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ اور بحیثیت قوم شناخت کو منوانا تھا، جس کیلئے ایک الگ مملکت کا قیام ناگزیر تھا۔ برصغیر میں حضرت مجدد الف ثانی پہلے بزرگ تھے۔ جنہوں نے دو قومی نظریہ پیش کیا، اس کے بعد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی۔
سر سید احمد خان، علامہ اقبال، مولانا شبیر احمد عثمانی، اور دیگر علمائے کرام نے نظریہ پاکستان کی وضاحت پیش کی، جبکہ برصغیر میں مختلف مسلم ادارے اسی دو قومی نظریے کی بنیاد پر قائم ہوئے، اور کئی تحریکیں اسی نظریے کے پرچار کے لیے معرض وجود میں آئیں، تاریخی پس منظر، تحریک پاکستان کی بنیاد 23 مارچ 1940ء کا جلسہ تھا، لیکن اس کی اصل شروعات تب ہوئی۔
جب مسلمانان ہند نے کانگریس سے اپنی راہیں جدا کیں، 1930ء میں علامہ اقبال نے الہ آباد میں باضابطہ طور پر برصغیر کے شمال مغرب میں جداگانہ مسلم ریاست کا تصور پیش کیا، اور چوہدری رحمت علی نے اسی تصور کو 1933ء میں پاکستان کا نام دیا۔ سندھ مسلم لیگ نے 1938ء میں اپنے سالانہ اجلاس میں برصغیر کی تقسیم کے حق میں قرارداد پاس کی، قائد اعظم۔
1930ء میں الگ مسلم مملکت کے قیام کی جدو جہد کا فیصلہ کر چکے تھے، اور 1940ء انہوں نے قوم کو بھی اس کیلئے ذہنی طور پر تیار کیا۔ 23 مارچ 1940ء کو لاہور میں ایک قرارداد منظور کی گئی، جس کے مطابق مسلمانان ہند انگریزوں سے آزادی کے علاوہ ہندوؤں سے بھی الگ ریاست چاہتے تھے۔ جبکہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے قرار دار لاہور کے صدارتی خطبے میں اسلام اور ہندو مت کو دو مختلف معاشرتی نظام قرار دیا۔
پاکستان کا قیام، ہندوستان کی سرزمین پر صدیوں مسلمانوں کی حکومت رہی، جبکہ ہندو مسلمان بادشاہوں کی رعایا رہے، تاہم ہندوستان پر انگریزوں کے قبضے کے بعد ہندوؤں نے انگریزوں کی قربت حاصل کی، لیکن انگریزوں نے چونکہ مسلمانوں سے اقتدار چھینا تھا، تو اس پر ردعمل بھی لازم تھا، اس لئے ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں سے الگ ریاست کے قیام کی پرزور جدوجہد کی۔
کیونکہ مسلمانوں کو صرف حکومت سے ہی محروم نہیں کیا گیا، بلکہ وسائل کے اعتبار سے بھی بہت کمزور کر دیا گیا تھا۔ 3جون 1947ء کو مسلمانانِ برصغیر کی جدو جہد رنگ لائی، اور برطانیہ کے آخری وائسرائے ہند ایڈمرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم ہندکی تاریخ یعنی 14 اگست 1947ء کا باقاعدہ اعلان کیا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے اعلان کے بعد قائداعظم محمد علی جناح نے ریڈیو پر تقریر کی۔
اور آخر میں بے پناہ جذبے اور ولولے سے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا، اور مسلمانان ہند کی تاریخ ساز جدوجہد کے نتیجے میں 14 اگست 1947ء بمطابق 27 رمضان المبارک کو پاکستان معرض وجود میں آیا۔ حرف آخر، جس طرح تحریر گیا کہ پاکستان کو معرض وجود میں آئے، پچھتر سال بیت چکے ہیں، نظریہ پاکستان کے ضمن میں ہم نے 18 پوائنٹ تحریر کیے ہیں، سوال یہ ہے کہ ہم نے ابھی تک ان میں سے کتنے Achieve کیے ہیں؟
دنیا بھر میں پاکستانی عوام، پاسپورٹ، یونیورسٹیز، کرنسی، طبی سہولیات، انفراسٹرکچر، رولز آف لاء، جمہوریت، کرپشن، سرکاری آفیسزز کی ناگفتہ بہ صورتحال، بجلی، پانی، گیس کی سہولیات میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں، جو میں حکمرانوں، سیاستدانوں، اپوزیشن، پڑھے لکھے حضرات اور عوام کیلئے چھوڑے جا رہا ہوں؟