Doosra Teer (1)
دوسرا تیر (1)
سدھارت گوتم کہتا تھا کہ انسانوں کو دو قسم کے درد کا سامنا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر پہلے درد کو ہم جسمانی درد (physical pain) اور دوسرے کو جذباتی درد (emotional pain) کہہ لیں، جسمانی درد کی خاصیت ہے کہ یہ وقت کے ساتھ بھر جاتا ہے، ٹھیک ہوجاتا ہے، لیکن ایموشنل درد کی کہانی کافی دلچسپ اور عجیب ہے۔
مثال کے طور پر آپ کو ایک تیر آکر لگتا ہے، اور آپ زخمی ہوجاتے ہیں، آپ کو درد ہورہا ہے لیکن فطرت کا نظام ہے کہ وقت کے ساتھ آپ کا زخم بھر جائے گا اور وہ یوں غائب ہوجائے گا کہ جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔
لیکن اب فرض کریں کہ جو تیر آپکو لگا ہے وہ کسی ایسے انسان نے مارا ہے جس سے آپ محبت کرتے تھے، یا جس پر بھروسہ تھا اور اس سے لگاؤ (attachment) تھا۔ یا پھر تیر لگنے کی وجہ سے آپ بستر پر کچھ عرصہ لیٹے رہے اور اس دوران آپکے کچھ منصوبے(plans) جن سے آپ کو لگاؤ تھا، جو آپ نے بنائے تھے وہ پورے نہ ہوسکے۔
اب آپکا ذہن آپکو بول رہا ہے کہ "میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا؟ میں نے اس پر بھروسہ کیوں کیا؟ کیا میں اتنا بیوقوف تھا کہ اسکی اصلیت نہ دیکھ سکا؟ میری ہی قسمت میں یہ سب کیوں تھا؟ کاش اگر ایسا نہیں ویسا ہوتا تو شاید آج میں اور بھی بہتر حالت میں ہوتا، وغیرہ وغیرہ"۔
پہلا تیر تو آپ کو لگ گیا، اس پر آپ کا کوئی اختیار نہیں تھا لیکن دوسرا تیر تکلیف (suffering) ہے اور یہ دوسرا تیر آپ خود کو خود ہی مار رہے ہیں۔
حالانکہ آپکا جسمانی زخم بھر چکا ہے، اس بات کو عرصہ ہوچکا ہے لیکن آپ کا ذہن آج بھی اس تیر والے حادثہ کے گرد کہانیاں بنا رہا ہے، نئے نئے امکانات (possibilities) اور نئے نئے اندازے لگا رہا ہے۔ ایسا ہی ہوتا ہے، جب آپ کے اندر بدلہ، آزردگی، افسوس، غصہ، مایوسی جیسے جذبات حادثہ ہوجانے کے بعد بھی سالوں قائم رہتے ہیں۔ لیکن یہ سالوں قائم کیوں رہتے ہیں؟ اور آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟
ویسے تو ایموشنل درد بھی وقت کے ساتھ بھر جانا چاہیے، اور یقیناً بہت لوگوں کا درد وقت کے ساتھ بھر جاتا ہے لیکن کچھ لوگوں کے ساتھ کیا مسئلہ ہوتا ہے جنکا درد نہیں بھرتا؟
سدھارت گوتم جو کہ ایک عیاش شہزادہ تھا اور صبح شام پارٹی کرکرکے تھک چکا تھا، ایک دن وہ محل چھوڑ کر اپنا ڈوپامین ڈیٹاکس (Dopamine Detox) کرنے کے سفر پر نکل پڑا۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ بدھا قدیم زمانے کا کوائنٹم فزسسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سائیکالوجسٹ بھی تھا، جس نے معلوم کیا کہ وہ "لگاؤ" (attachment) ہی ہے جو آپ کے ایموشنل زخم کو بھرنے نہیں دیتا۔ دو قسم کے جذباتی لگاؤ کا ذکر کیا تھا بدھا نے:
1- طلب (craving)
2- کراہت (aversion)
ماڈرن سائیکالوجی میں جان بولبی (John Bowlby) کی اٹیچمنٹ تھیوری (Attachement Therory) جس میں دو قسم کی اٹیچمنٹ کو بولبی نے بیان کیا ہے:
1- مضطرب لگاؤ (anxious attachment)
2- اجتناب برتنے والا لگاؤ (avoidant attachment)
الفاظ مختلف ہیں لیکن ان دونوں کا مطلب ایک جیسا ہے۔
جن بچوں کو کچھ ایسے واقعات یا حادثات کا سامنا کرنا پڑے جو ایک بچے کے نا پختہ (underdeveloped)دماغ کے لیے سمجھنا مشکل ہو، اور ان واقعات سے جنم لینے والے احساسات کو محسوس کرنا یا انہیں سمجھنا ان کے لیے دشوار ہو، اور ان کے والدین/معاشرہ ان احساسات کو سمجھنے میں یا پراسس کرنے میں ان کی مدد نہ کرسکے ہوں تو پھر عموماً وہ اٹیچمنٹ ڈساڈر (Attachment Disorder) کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ صرف لوگوں، چیزوں، جگہوں، احساسات سے غیر صحتمندانہ طور پر جڑ جاتے ہیں بلکہ کئی معاملات میں طلب یا کراہت والے لگاؤ کے زیرِ اثر رہتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہ جادوئی اور پرفیکٹ لگاؤ کونسا ہے جس سے آپ کو ایموشنل درد نہ ہو یا پھر آپ کے زخم جلدی بھر جائیں؟
بدھا اسے "غیر منسلک" (Non-Attachment) کہتا ہے، اور ماڈرن سائیکالوجی اسے "محفوظ لگاؤ" (Secure Attachment) کے نام سے جانتی ہے۔ لیکن یہ پرفیکٹ اور جادوئی نہیں ہے۔
بدھا کہتا ہے کہ طلب یا کراہت آنا ایک نارمل سی بات ہے اور یہ انسان ہونے کی علامت ہے، کیونکہ اس کراہت یا طلب کے پیچھے احساسات (sensations) ہوتے ہیں۔ جب طلب ہونے پر وہ چیز مل جائے تو جسم میں"خوشگوار احساسات" (pleasant sensations) محسوس ہوتے ہیں، اور جب کوئی ناپسندیدہ چیز کا سامنا کرنا پڑے تو "ناخوشگوار احساسات" (unpleasant sensations) جسم میں دوڑتے ہیں۔۔
یہ سارا پلیژر پین (pleasure pain) کا گیم انہی احساسات سے جڑا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ ان میں سے کسی ایک احساس سے ضرورت سے زیادہ جڑ جاتے ہیں۔ جتنا زیادہ اور غیر صحت مندانہ لگاؤ ہوگا اتنی ہی زیادہ ایموشنل تکلیف ہوگی، اور اتنا ہی آپ ان احساسات کے غلام ہوں گے۔
جاری ہے۔۔