Shab e Baraat
شبِ برات

بچپن کی خوبصورت یادوں میں سے کچھ یادیں شبِ معراج اور شبِ برات کی بھی ہیں۔ تب یہ علم کہاں ہوتا تھا کہ ان راتوں کا اصل مفہوم کیا ہے، ان کا مقصد کیا ہے۔ بس یہ خبر ہوتی تھی کہ یہ راتیں خاص ہوتی ہیں، خصوصاً شبِ برات۔۔
شبِ برات آتی تو بازار سج جاتے، ان میں اتنے رنگوں کے پٹاخے بکنے لگتے کہ باقی سارا کچھ ہی پس منظر میں چلا جاتا۔ پستول ہوتے تھے جن میں آگے کی طرف لکڑی کی گولیاں پھنسا کر پھر انھیں چلایا جاتا تھا۔ شرلیاں ہوتی تھیں، ماچس کی طرح رگڑ کر پھینکنے والے پٹاخے ہوتے تھے۔ ان سب کے علاوہ پٹاس ہوتی تھی اور وہ گولے جو ہم خود بنایا کرتے تھے، باریک بجری لے کر، اس میں بارود وغیرہ ملا کر پھر اس کا بم سا بناتے تھے۔ پھر اس کو دیوار پہ زور سے مارا کرتے تھے۔ ایسی دھماکے دار آواز آتی کہ دیواریں ہل جاتیں۔ کئی بابے گالیاں دیتے گھروں سے نکلتے اور ہم دوڑ لگا دیتے۔ تب رنگ برنگی شرلیاں ہوتی تھیں، کان پھاڑتے دھماکے ہوتے تھے، اس رات میں بہت کچھ ہوتا تھا۔
شبِ برات ایک مکمل تہوار کا روپ رکھتی تھی، بچوں کا جوش دیدنی ہوتا تھا۔ ان کی چمکتی آنکھوں سے خوشیاں چھلکا کرتی تھیں۔ پٹاخے چلاتے، شرارتیں کرتے ان سب کے لیے یہ رات اتنی یادگار ہوتی تھی کہ وہ کئی کئی دن اس کی تیاریاں کیا کرتے تھے اور اس کے گزر جانے کے بعد کئی دن اسے ہی ڈسکس کرتے رہتے تھے۔
لیکن شب برات میں صرف شور شرابہ نہیں ہوتا تھا۔ ہر گھر میں طرح طرح کے کھانے پکتے تھے، پڑوسیوں رشتہ داروں کے گھر کھانے بھجوائے جاتے تھے اور ان کے گھروں سے آئے رنگ رنگ کے کھانے کھا کر مزے لیے جاتے تھے۔ شرلیاں، پٹاخے، بم، پستول چلانے کے بعد عبادت کا وقت ہو جاتا تھا۔ ہم مساجد میں چلے جاتے اور وہاں نفل پڑھنا شروع کر دیا کرتے تھے۔ کبھی دوستوں کے ساتھ، کبھی اکیلے مسجد کے کسی ایک کونے میں جم کر بس دھڑا دھڑ نفل پڑھتے رہتے تھے۔ پچاس نفل، سو نفل۔۔ بس پڑھتے چلے جاتے، پڑھتے چلے جاتے۔ اگر دوستوں کے ساتھ ہوتے تو پھر آپس میں طے کر لیا جاتا کہ چلو پچاس نفل پڑھتے ہیں۔ پڑھ لیے، چلو باہر گھوم کے آتے ہیں، پھر پچاس اور پڑھیں گے۔
تب شب برات ایک بھرپور رات ہوا کرتی تھی۔ مساجد میں سجتی ہوئی محفلیں، سپیکروں پہ نعتیں پڑھتے بچے اور گلیوں سے ٹھاہ ٹھاہ کی مسلسل آتی آوازیں ہمیں زندگی سے روشناس کرواتی تھیں۔ اس سب کا حصہ بن کر ہمارے جسم میں جوش کی لہریں دوڑا کرتی تھیں۔ اس رات میں ایسی رونق ہوتی تھی کہ ویسی ایک رات پہ اب برسوں کی زندگی قربان کی جا سکتی ہے۔
بعض اوقات سحری تک وہیں مسجد میں ڈیرے ڈالے بیٹھے رہتے اور بعض اوقات ایک دو بجے ہمت جواب دینے لگتی تو واپس گھر آ جاتے۔ پھر سحری کا انتظار شروع ہو جاتا اور ڈٹ کے سحری کی جاتی۔ روزہ رکھا جاتا، فجر کی نماز پڑھی جاتی اور لمبی تان کے سو جاتے۔ میری پھوپھو بچوں کو قرآن پڑھایا کرتی تھیں (اب ان کی وفات ہوگئی ہے، ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کر دیجیے گا) وہ قرآن پڑھنے کے لیے آنے والے بچوں کی محفل بھی سجایا کرتی تھیں، ان میں محلے کی خواتین کو بھی بلایا کرتی تھیں۔ میں بہت چھوٹا تھا تو ان سب محفلوں کی یاد دھندلی دھندلی سی ہے۔ ایک دفعہ میں شب برات پہ روزہ رکھ کر سویا تو نو دس بجے آنکھ کھل گئی، میں کچن میں گیا اور کھانے پہ ہاتھ صاف کرنے کے بعد یاد آیا کہ میرا تو روزہ ہے۔
تب ایسا لگتا تھا کہ شب برات شاندار تہوار اور ہمارے رسم و رواج کا بھرپور حصہ ہے۔ اس کا انتظار کیا جاتا تھا، اسے بھرپور طریقے سے منایا جاتا تھا۔ اسلامی طور پہ اس رات کو منانے میں اختلاف ہے کہ اس کو کیسے منانا چاہیے لیکن ہم نے بچپن میں تہوار کے طور پہ اس رات کو بھرپور طریقے سے منایا ہے اور اس سے ڈھیروں خوبصورت یادیں اکٹھی کی ہیں۔ اب تو شب برات آ کر گزر بھی جاتی ہے اور احساس بھی نہیں ہوتا۔ نہ وہ محافل سجا پاتے ہیں، نہ ہی رونق لگتی ہے۔
اس رات میں اسلامی طور پہ پٹاخے بجانا، بم پھوڑنا، نوافل پڑھتے رہنا کتنا ٹھیک تھا، کتنا غلط اس بحث سے قطع نظر تہوار کے طور پہ منائی جانے والی شب برات یاد آتی ہے، اس کی کمی بہت شدت سے محسوس ہوتی ہے۔