Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Naveed Khalid Tarar
  4. Maa Ji

Maa Ji

ماں جی

مینہ برس رہا ہے، ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے اور دل جل رہا ہے۔ اب تو یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ دل کیوں جل رہا ہے لیکن بس جل رہا ہے۔ بہت دیر کھلے آسماں تلے بارش میں بھیگتا رہا مگر بارش کے ساتھ وجود میں اترتی ٹھنڈک تو دل کی آگ کو بڑھاتی ہی چلی جا رہی تھی، اس لیے میں کمرے میں آ بیٹھا۔

ماں جی بیتے برسوں میں ایسا کوئی دن کوئی لمحہ نہیں گزرا جب میں نے آپ کی گود میں سر رکھ کے آپ کو اپنے دل کا حال سنانے کی خواہش نہ کی ہو۔ لیکن میں جانتا ہوں یہ محرومی سدا بہار ہے اور اس کا کوئی حل بھی نہیں۔ ہاں مگر اس محرومی کو کسی سے نہ کہہ پانے کی جو تکلیف ہے وہ بھی تو کم نہیں اور میں آج تک اس کا بھی کوئی حل نہیں نکال پایا۔

ماں جی میں نے شعر لکھے، تحریریں لکھیں لیکن دل کی بھڑاس نہیں نکلی۔ بہت کچھ لکھا لیکن آپ کے لیے کبھی کچھ نہیں لکھ پایا کہ آپ کے متعلق جب سوچتا ہوں تو وجود نچڑنے لگتا ہے، دل ڈوبنے لگتا ہے۔ پور پور میں ایسی تکلیف اتر آتی ہے کہ کچھ لکھنے کی ہمت ہی نہیں رہتی۔ ہاں مگر کچھ مبہم سطریں، کچھ آڑے ترچھے لفظ لکھنے کی کوشش کی لیکن ان میں سے کچھ بھی آپ کے شایانِ شان تو نہیں۔

ماں جی آج بارش میں بھیگتے بھیگتے آپ کو خط لکھنے کی شدید خواہش جاگ اٹھی، میں نے کمرے میں آ کے حروف جوڑنے شروع کیے مگر پھر وہی تکلیف جاگ اٹھی۔ ایسا لگنے لگا جیسے پورے وجود کو یہ کرب نگل جائے گا۔ میں نے ہمیشہ کی طرح لفظ ادھورے چھوڑ دیے۔ لیکن کچھ دیر بعد انھیں پھر سے جوڑنے لگ گیا ہوں۔ آج جو بھی ہو، آپ کو خط تو لکھنا ہی ہے۔

ماں جی! آج انیس سال آٹھ مہینے اور چار دن بعد میں آپ کو پہلا خط لکھ رہا ہوں۔ آپ کے جانے پہ مجھے لگتا نہیں تھا کہ میں اتنا جی پاؤں گا مگر جی تو رہا ہوں اب تک۔ ماں جی میں اس دن بہت رویا تھا، اتنا رویا تھا کہ مجھے لگتا تھا میرا وجود آنکھوں کے رستے بہہ نکلے گا۔ میں سوچتا تھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں دوبارہ کبھی آپ سے نہ ملوں، اپنے وجود کے دوسرے حصے سے نہ ملوں۔ آج تک یہی سوچتا آ رہا ہوں اور آج تک نہ جواب ملا ہے نہ آپ سے ملنے کی کوئی راہ۔

ماں جی سوچتا ہوں وہ لوگ جو آپ سے مل نہیں پائے، وہ کیسے جان پائیں گے کہ وہ کتنی بڑی محرومی کا شکار ہوئے ہیں۔ آپ کے وجود سے پھوٹتی محبت جو دور دور کی عورتوں کو کھینچ لاتی تھی، اسے محسوس کیے بغیر کوئی اس کی محرومی کا ادراک کیسے کر پائے گا۔ ماں جی اب تو آپ کا نام لے کر گلیوں میں میرا ماتھا چومنے والی بوڑھی عورتیں بھی کم ہوتی جا رہی ہیں۔ آپ کے نام سے ان کی آنکھوں میں جو نمی اتر آتی تھی وہ میرے لیے سرمایہ حیات ہے۔

ماں جی! آپ کا سب سے چھوٹا بچہ جسے آپ کے ساتھ لپٹ کر سونے کی عادت تھی، اسے یہ سمجھنے میں عمر لگ گئی کہ اب آپ کا وجود میسر نہیں آئے گا۔ میں گھر میں داخل ہوتے ہی جو زوردار سلام آپ کو کیا کرتا تھا، وہ آپ کے جانے کے بعد غیر ارادی طور پہ میری زبان سے نکل کر بہت تکلیف دیتا رہا۔ پھر ایک روز میں نے اپنے ایک سمجھدار دوست سے پوچھا کہ یار یہ عادتیں کیسے ختم ہوتی ہیں؟ وہ کچھ دیر مجھے دیکھتا رہا کہ میں نے اس کی سمجھ سے بڑا سوال کر لیا تھا اور پھر مجھے کوئی جواب نہ دے سکا۔ تب ہماری عمر تھی بھی کیا جو ہم ایسی باتوں کے جواب جان پاتے۔

ماں جی، آپ کے جانے سے میرے اندر جو توڑ پھوڑ ہوئی تھی، میں کبھی اسے ٹھیک نہیں کر پایا۔ مجھے یہ سمجھنے میں بہت وقت لگ گیا کہ میں اب ایک disturbed soul ہوں، میں نارمل زندگی نہیں گزار سکتا۔ لیکن میں نے آپ کی ذات کی نرمی کو دوسروں کے لیے ختم نہیں ہونے دیا، میں نے اپنی تخریب کاری اپنے تک محدود رکھی۔ ہر ممکن کوشش کی کہ میری ذات سے کسی دوسرے کو گزند نہ پہنچے، میں کسی دوسرے کی تکلیف کا باعث نہ بنوں۔ لیکن ماں جی میں نے اپنا بہت نقصان کیا، میں نے اپنے اوپر بہت ظلم کیے ہیں۔ آرزو کا ختم ہو جانا بھی موت ہوتی ہے، جب مجھے اس بات کا احساس ہوا تو میری آرزوؤں کو ختم ہوئے کئی برس گزر چکے تھے۔ میں دوسروں کے دکھ بانٹنے والا بن گیا تھا، میں کیسے کسی کو بتاتا جو میرا دکھ ہے۔

ماں جی گھر کا صحن آپ کے جانے کے بعد اپنی وقعت کھو بیٹھا تھا۔ وہاں اب کوئی چارپائی پہ بیٹھا میرے سلام کا جواب دینے اور میرے سر پہ ہاتھ پھیرنے کو میسر نہیں ہوتا تھا۔ آپ کے لمس کو دوبارہ کبھی محسوس نہ کر سکنے کا احساس اتنا اعصاب شکن تھا کہ مجھے لگتا تھا میں ریزہ ریزہ ہو کر فضا میں بکھر جاؤں گا۔ میں نے کبوتر کی طرح آنکھیں موند کر اس سب سے چھٹکارا پانا چاہا لیکن بے سود رہا۔ مجھے اس گھر سے فرار چاہیے تھا لیکن گھر سے فرار بھی مجھے قرار نہیں دے سکا تو میں اپنی ہی ذات سے فرار کی راہیں ڈھونڈنے لگا لیکن اپنے آپ سے فرار ممکن ہی کہاں تھا۔

میں جانتا ہوں یہ ممکن نہیں لیکن اب بھی یہی چاہتا ہوں کہ میں گھر لوٹوں اور آپ صحن میں بیٹھی ہوں۔ میرے سلام کا جواب دیتے ہوئے مجھے کھینچ کر اپنے ساتھ لپٹا لیں۔ میرا سر اپنی گود میں رکھیں اور میرے گریاں دنوں کی تھکن کو چوم کر ہوا میں تحلیل کر دیں۔ میرے بدن سے سفر کی ساری صعوبتیں چن کر فرش پہ بہا دیں۔

ماں جی میں اس ایک خط میں انیس سال آٹھ مہینے اور چار دنوں کا احوال نہیں لکھ سکتا لیکن میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کے جانے سے بھرا پرا گھر اجڑ گیا، رشتوں کا وہ بحران پڑا کہ مجھے وقت سے پہلے ہی سمجھدار ہونا پڑا، مجھے اپنی ذمہ داری خود اٹھانی پڑی۔ میرا ہاتھ تھامنے کے لیے کوئی نہیں تھا تو مجھے بے سہارا ہی اپنی زندگی چلانی پڑ گئی۔ آپ کی جدائی میرا بچپن کھا گئی اور اس جدائی سے ملنے والی تنہائی میری جوانی کھا گئی ہے۔

ماں جی آج برستے مینہ میں بھیگتے ہوئے مجھے آپ کے ساتھ بارش میں گزارا کوئی بھی لمحہ یاد نہیں آیا۔ کیا ہم کبھی اکٹھے بارش میں بھیگے تھے؟ یقیناً بھیگے ہوں گے کہ آپ کے چھوڑ جانے سے پہلے تک تو میں آپ سے الگ ہو کر کوئی عمل کرنے کا تصور بھی نہیں رکھتا تھا۔ لیکن آج بہت سوچنے کے بعد بھی مجھے بارش میں آپ کے ساتھ گزارا کوئی لمحہ یاد نہیں آیا۔ شائد بیتے انیس سال آٹھ ماہ اور چار دنوں نے جو گرد اڑائی ہے اس نے میری یادداشت کو کمزور اور میرے تصور کو محدود کر دیا ہے۔ تو کیا ایک یہی بات میرا دل جلانے کے لیے کافی نہیں؟

ماں جی میں نے کئی برس پہلے آپ کے لیے ایک چھوٹی سی نظم لکھی تھی، میں اپنا خط اس نظم پہ ختم کرنا چاہتا ہوں۔

ماں !

اک اچھا

معصوم سا بچہ

ترے بعد

بچہ نہیں رہا

اچھا نہیں رہا

آپ کا اور فقط آپ کا لاڈلا

Check Also

Roos, Nuclear Doctrine Aur Teesri Aalmi Jang

By Muhammad Aamir Iqbal