Paris Mein Secularism Ka Janaza
پیرس میں سیکولرازم کا جنازہ
انسانی تاریخ میں موجودہ یورپ کو انسانی ترقی کا عروج کہا جاتا ہے۔ جمہوریت، آزادی اور ٹکنالوجی کا چیمپین یورپ کو کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کئی دانشور روز ہمیں یورپ کی سیکولر اقدار کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے۔ کہا جاتا ہے کہ یورپ جب اپنے Dark age کے دور سے نکلا جو آپس کی جنگوں اور مذہبی منافرت کا دور تھا تو Renaissance کا دور شروع ہوا اور پھر Enlightenment یعنی روشن خیالی کا دور جس کا جنم پیرس میں انقلاب فرانس میں ہوا۔ اس کے بعد یورپ نے ہر قسم کی ترقی کی اور اب دنیا میں اس کا عروج ہے۔ یہ تاریخ ہم سیاست، تاریخ اور سوشل سائنسز کے طالب علموں کو پڑھائی جاتی ہے اور ساتھ Eurocentrism کے شکار لوگ دن رات ہمیں یہ باور کرواتے رہتے ہیں کہ یورپ کے ماڈل کو فالو کرو ورنہ ترقی نہیں ہو سکتی یہ دانشور سرمایہ دارانہ نظام کو آئیڈیل قرار دیتے ہیں اور دنیا میں Liberal democracy کا بول بالا چاہتے ہیں۔ ہمیں طعنہ ملتا ہے کہ تم نے سیکولرازم کو سمجھا ہی نہیں۔ تم تو سیکولرازم کو لادینیت خیال کرتے ہو لیکن سیکولرازم تو انسانی بنیادوں پر بات کرتا ہے کہ ریاست اپنے تمام شہریوں کے ساتھ برابر سلوک کرے۔ یورپ سیکولرازم، لبرلزم اور انسانیت کا دعوی دار ہے جہاں ہر مذہب کے ماننے والوں کا احترام کیا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔
سب سے زیادہ مذہبی منافرت بھی اسی یورپ میں ہے۔ اسلاموفوبیا اس قدر عروج پر ہے کہ کبھی نیدرلینڈز میں مسلمانوں کے رسول حضرت محمد ﷺ کی توہین کی جاتی ہے تو کبھی فرانس میں گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ ہوتا ہے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ یہ کسی فرد یا کسی سیاسی جماعت کا ذاتی فعل ہے ریاست کا اس سے کوئی سروکار نہیں یہ آزادی اظہار کے مطابق ہر فرد کا حق ہے کہ وہ جو مرضی بولے۔ لیکن اب فرانس میں جو حالیہ لہر اسلاموفوبیا کی آئی ہے اس میں یورپ کا سارا کچہ چٹھہ کھل گیا ہے۔ اس میں فرانس کی ریاست ملوث ہے۔ فرانسیسی صدر ایمانیل میغکواں نے جو ریاستی سطح پر اسلام مخالف پالیسی کا اعلان 2 اکتوبر 2020 کو کیا اس سے یورپ کی ساری اقدار کھوکھلی ثابت ہوئی۔ وہ پیرس جہاں انقلاب فرانس برپا ہوا اور نام نہاد روشن خیال اقدار کو فروغ ملا وہاں آج موجودہ فرانسیسی حکومت کھل کر اسلام کے خلاف کام کر رہی ہے۔ ایک استاد کلاس میں لیکچر جس کا موضوع آزادی اظہار ہے کے دوران سیدالابنیاء کی شان میں گستاخی کرتا ہے۔ یہ کون سی آزادی اظہار ہے؟ یہ تو بغض اسلام ہے۔ یورپ کی تہذیب منافقت، جبر، سامراجیت اور قتل عام پر کھڑی کی گئی ہے۔ بقول اقبال
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہوگا
آج وہ دانشور اور یورپ پسند تجزیہ نگار کہاں ہیں۔ ان سے کوئی پوچھے کہ یورپ میں کہاں سیکولرازم کا مطلب انسانی حقوق کی بلا امتیاز مذہب بات کرنا ہے؟ آج پیرس کی شانزے لیزے پر سیکولر بت اوندھے منہ پڑا ہے اور یہ گستاخانہ خاکے چیخ چیخ کر اعلان کر رہے ہیں کہ یہ سب جھوٹ اور منافقت ہے اور اسلام سے نفرت ہے۔ یورپ کی مادی ترقی سے متاثر یہ لوگ یورپ میں گستاخانہ خاکوں کا مقصد بتائیں گے؟ اس کا مقصد صرف کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کو ٹھیس پہنچانا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ مسلمان اپنے آقا دو جہاں کی توہین بردشت نہیں کرتے اور جذباتی وابستگی رکھتے ہیں انہیں تنگ کرنے کا واحد حل یہی ہے کہ ان کے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کرو۔ کہا جاتا ہے کہ توہین رسالت کے موضوع پر آپ جذباتی نہ ہوں عقل سے کام لیں اور یورپ کو سمجھیں لیکن سیدالابنیاء کی محبت ایمان کا حصہ ہے اور ایمان اور جذباتیت کا ساتھ ہے۔ آج ہم امت مسلمہ کی خاموشی بھی مجرمانہ ہے۔ 57 ملک مل کر یورپ کو اس شیطانی عمل سے روک نہیں سکتے؟ صرف بائیکاٹ سے بات نہیں بنے گی اس کی روک تھام کیلئے مسلم ملکوں کو ان شیطانی طاقتوں کو جواب دینا پڑے گا۔ اگر 57 مسلمان ملک فرانس کا Diplomatic boycott کریں تو شاید فرانس کو عقل آ جائے لیکن ایسا کون کرے؟
حمیت نام تھا جس کا
گئی مسلمانوں کے گھر سے۔