Israel Ko Tasleem Karne Ki Batain
اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں
تل ابیب کے بن گوریان ائر پورٹ سے پرواز LY971 نے اڑان بھری اور متحدہ عرب امارات میں لینڈ کر گئی۔ اس سے پہلے 13 اگست 2020 کو متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بحث پاکستان میں بھی شروع ہو گئی۔ اس کے حق اور مخالفت میں کئی دلائل پیش کئے گئے۔ میڈیا رائے عامہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کچھ فاضل کالم نگاروں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں بھر پور دلائل دیئے۔ کہا گیا کہ فلسطین اصل میں یہودیوں کی سرزمین ہے اور حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بارہ بیٹوں کے ساتھ اس قدیم علاقے میں آباد تھے۔ یہ اسرائیل کو جائز ریاست کہنے کی کوئی مرکزی دلیل نہیں ہے۔ کیونکہ دنیا میں کوئی خطہ وہاں پر موجود آبادی کا آبائی خطہ نہیں۔
برصغیر میں اس کے اصل باشندے کس حال میں ہیں؟ وسط ایشیا سے آنے والے آرین یہاں آباد ہیں۔ اسی طرح حضرت یعقوب علیہ السلام کے دادا حضرت ابراہیم علیہ السلام تو آتش نمرود کے بعد عراق سے ہجرت کر کے فلسطین میں آباد ہوئے تھے۔ اس خطے میں تو Phonicains آباد تھے۔ پھر پاکستان میں یہ دلیل پیش کی گئی کہ ہم نے بھارت کو تسلیم کر رکھا ہے جو بت پرست اور مشرک ہے اور ہم اسرائیل جو یہودی اور اہل کتاب ہیں ان کے ساتھ دشمنی کیوں؟ پاکستان نے بھارت کو تسلیم کر رکھا ہے لیکن کشمیر پر قبضے کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ اس پر ہم بھارت سے جنگیں لڑ چکیں ہیں۔ پاکستان کشمیر سمیت فلسطین اور ہر قبضےکو ناجائز کہتا ہے اور اپنے اس اصولی موقف پر قائم ہے۔
ایک اور بات کی یہاں وضاحت ضروری ہے وہ یہ کہ اسرائیل ایک صیہونی ریاست ہے پوری دنیا میں کئی یہودی اسرائیل کے خلاف ہیں۔ نیویارک اور لندن میں بسنے والے کئی یہودی اسرائیل کے خلاف ہیں۔ یہودیت اور صیہونیت دو الگ چیزیں ہیں۔ اس کے فرق کو سمجھنا ہو گا۔ اسرائیل کے مخالف یہودی زیادہ مذہبی اور یہودیت سے پیار کرنے والے ہیں۔ پھر دلیل دی گئی کہ یہ مسئلہ فلسطین تو عربوں کا معاملہ ہے اور مصر، اردن اور متحدہ عرب امارات اسرائیل کو تسلیم کر چکے اور ہم سے مشورہ تک نہیں کیا اور ہمیں بھی اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہیے گویا دنیا میں ظلم اور جبر کی مذمت کرنے کا معیار عربوں کے رویہ پر ہے جو وہ کریں وہی ہمیں بھی کرنا چاہیے۔
اس کے علاوہ عربوں نے اپنا جواب دینا اور ہم نے اللہ کی عدالت میں اپنا اور ہر نے اپنی قبر میں جانا ہے۔ دلیل دی گئی کہ اسرائیل اور بھارت کے تعلقات بہت اچھے ہیں ہمیں بھی اسرائیل کے ساتھ دوستی کر کے ایک دشمن کم کرنا چاہیئے تاکہ مشکل وقت میں ہمارے کام آسکے تو اس کا جواب تاریخ دے رہی ہے۔ ماضی میں کتنے ساتویں بحری بیڑے ہماری مدد کو خلیج بنگال میں آئے تھے؟ سیاست میں کوئی مستقل دوست اور دشمن نہیں ہوتا ہر کسی کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ وقت آنے پر ہر کوئی اپنے مفادات دیکھتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک بات جو پاکستان کو مدنظر رکھنی چاہیے وہ یہ کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے دنیا میں ہمارا کشمیر پر اصولی موقف کمزور پڑ جائے گا۔ ہم کشمیریوں سمیت فلسطین پر ناجائز قبضے کی بھر پور مذمت کرتے ہیں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اس کا حل چاہتے ہیں۔
ایک طرف اگر ہم اسرائیل کے قبضے کو جائز اور بھارت کے قبضے کو ناجائز کہیں گے تو یہ کھلا تضاد نہیں ہوگا؟ پوری انسانیت کے اخلاقی اصولوں کے برخلاف اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا تھا کیا آج انسانی اخلاقیات کا علمبرادر کوئی نہیں؟ ایک اور دلیل یہ پیش کی جارہی ہے کہ اسرائیل ایک طاقت ور ملک ہے ہمیں اس کو تسلیم کرنا چاہیے۔ محرم کے دن چل رہے ہیں ہر طرف امام عالی مقام کے تذکرے ہیں۔ واقعہ کربلا کا تو درس یہی ہے کہ ظالم طاقت ور کے سامنے ڈٹ جاو اور جابر حکمران کو کبھی تسلیم نہ کرو۔ اسرائیل یزیدیت پر قائم ریاست ہے جو فلسطینیوں پر 1948 سے کربلا بپا کئے ہوئے ہے لیکن افسوس کہ قافلہ حجاز میں ایک بھی حسین رضی اللہ نہیں جو ان صیہونیوں کو للکار سکے اور کہے کہ ظالم اور جابر ریاست کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔
کربلا کا یہی درس ہے کہ یزیدیت کے خلاف ڈٹ جاو۔ پاکستان نے الحمداللہ واضح کردیا ہے کہ ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔ جو لوگ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں ہیں۔ وہ اپنے ضمیر کو جگائیں۔ عرصہ ہوا فلسطینی عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اس ظلم کو سند دی جائے کم از کم پاکستان کو تو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ ہر کسی نے خدا کی عدالت میں پیش ہونا ہے اور اپنے عمال کا جواب دینا ہے۔