Sultan Ghulam Bahu Ke Maktoobat Ka Radd Nao Abadiyati Tajzia
سلطان غلام باہو کے مکتوبات کا ردّ نوآبادیاتی تجزیہ

علمی رّدِ نوآبادیات کی ایک خصوصیت کا ذکر ضروری ہے۔ بادی النظر میں یہ اپنی اصطلاحات، دلائل، تاریخی ولسانی اور ادبی تجزیوں کی رو سے ایک، سیکولر پراجیکٹ، محسوس ہوتا ہے۔ ہم ردّ نوآبادیاتی نظریہ سازوں پر الزام نہیں رکھ سکتے کہ انھوں نے دانستہ مذہبی عنصر کو اپنے نظریات سے خارج رکھا۔ ایڈورڈ سعید نے تو بہ طور خاص، مغربی ادبی متون اور ذارئع ابلاغ میں اسلام کی ترجمانی پر، نوآبادیاتی تناطر میں، سخت تنقید کی ہے۔
اس کے باوجود، ردّ نوآبادیاتی تحریروں کا مطالعہ کریں تو ان میں ادیبوں، دانش وروں، سیاسی رہ نماؤں کو مزاحمت کی نشان دہی تو ملتی ہے، مذہبی طبقات کی نہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مذہبی طبقات نے اپنی تحریروں میں یورپ، استعماریت، جدیدیت، سیکولر فکر اور مستشرقین کے نقطہ ہاے نظر کو بے رحمی سے تنقید کا نشانہ بنایا ہے، مگر ان کی تحریریں ردّ نوآبادیات کے مرکزی ڈسکورس میں شامل نہیں ہیں، ان کے مصنفین اور قارئین کا حلقہ الگ ہے۔ ان کی اصطلاحات، دلائل کا طریق کار اور موضوعات کا دائرہ بھی جدا رہتا ہے۔ ردّ نوآبادیاتی مطالعات میں مذہبی اصطلاحات کے استعمال سے سخت گریز پایا جاتا ہے۔
یہیں سے ردّ نوآبادیاتی مطالعات پر یہ الزام بھی لگتا ہے کہ وہ استعماری مغرب کے خلاف، اسی کی زبان و لغت میں، ڈسکورس تشکیل دیتے ہیں، یعنی: "میر بھی کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب /اسی عطارکے لونڈے سے دوا لیتے ہیں"۔ یہ الزام تو خیر الزام ہی ہے اور اس کی بنیاد علم، کو ایک شے سمجھنے اور پورے مغرب کو وحدانی شناخت کا حامل سمجھنے پر ہے۔ کم از کم سماجی سائنسوں میں علم، شے نہیں ہے، بلکہ ایک قابلِ تعبیر تصور ہے۔ علاوہ ازیں، مغرب کی استعماری مقتدرہ، ان کے علمی حلیفوں اور وہاں کے انسان دوست اہل علم میں فرق کیا جاناچاہیے۔ یہ سمجھنا تو سادہ لوحی ہوگی کہ تمام مستشرقین، استعماری مشین کا پرزہ بن گئے تھے۔ استعماری مغرب کے خلاف، اس کی زبان و لغت میں جن لوگوں نے تنقید کی ہے، انھوں نے استعماری مقتدرہ کے حلیفوں اور انسان دوست مستشرقین و اہل علم میں فرق کیا ہے۔
لیکن کیا اس وضاحت سے، ردّ نوآبادیات کے سیکولر ہونے کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے؟ جواب ہے کہ نہیں۔ سادہ سی بات ہے کہ نوآبادیات ایک مکمل نظام تھا، جس نے اپنی نوآبادیوں کے پورے سماجی ڈھانچے کو متاثر کیا تھا۔ لہٰذا ردّ نوآبادیات بھی، مکمل اور مطلق نظام کی صورت ہونی چاہیے۔ یعنی اس میں ادیبوں، دانش وروں کے ساتھ ساتھ سماج کے باقی طبقات، عام لوگوں، اہل حرفہ، خواتین، نیز اہل مذہب وتصوف کی مزاحمت کی تاریخ کوبھی شامل کیا جانا چاہیے۔ ان سب کی مزاحمت کے تصور، حدود اور منطق کا معروضی تجزیہ کرتے ہوئے۔
اہل مذہب و تصوف میں بھی بلاشبہ کچھ ایسے لوگ تھے، جنھوں نے انگریز استعمار کا ساتھ دیا۔ ملتان کے مخدوم شاہ محمود قریشی نے 1857 کی جنگ آزادی کے مجاہدین کو کچلنے میں کمشنر کرنل ہملٹن کا ساتھ دیا، مگر علما و صوفیا (جن کا ذکر آگے ہیں) کی اکثریت نے استعمار کی عملی و علمی مخالفت کی۔ ان سب کی مزاحمت کی بنیادی منطق مذہبی تھی، یعنی جہاد۔ جہاد، سیاہ و سفید میں قطعی فرق کرتا ہے اور کسی ابہام کا شکار نہیں ہوتا۔ وہ استعمار کی کلی اور مطلق مخالفت کرتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے فرانز فینن بھی استعمار کی کلی و مطلق مخالفت کرتا تھا، اسی لیے تشدد کو جائز سمجھتا تھا۔ وہ سفید فام یورپ کے اجارے کے خاتمے کے لیے، سیاہ فام افریقہ کی منظم، متشدد جدوجہد کے حق میں تھا۔
باقی بیشتر طبقات کی مزاحمت کا رنگ دوجذبی، ہے۔ ہومی کے بھابھا نے دوجذیبت (ambivalence) اور اشیش نندی "جگری دشمن" (intimate enemy) کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ یعنی یورپ کا علم اور قرب بھی حاصل کرنا اور اس سے استفادے کے ساتھ ساتھ، اس کے استحصال کی نشان دہی بھی کرنا۔ اہل مذہب وتصوف کے یہاں "دشمن " سے قرب نہیں، فاصلہ لازم ہے۔ اس میں بلاشبہ کہیں کہیں استثنائی صورتیں بھی ہیں۔ یہ صورت وہیں پیدا ہوئی ہے، جہاں مطلق مذہبی منطق کے ساتھ، مادی و تاریخی منطق کو بھی جگہ دی گئی ہے"۔
"سلطان غلام باہو کے مکاتیب میں شریعت اور طریقت دونوں کا ذکر موجود ہے، مگر شریعت کا پلڑا بھاری ہے۔ باطنی، روحانی کیفیات کے بیان سے زیادہ شریعت کے احکام کا بیان زیادہ ہے۔ ملت اور شناخت کا مسئلہ، ان مکاتیب میں بار بار ظاہر ہوتا ہے۔ چوں کہ یہ مکاتیب مختلف وقتوں میں اور مختلف شخصیات کے نام لکھے گئے ہیں، اس لیے یہ مسئلہ، اجزا کی صورت ظاہر ہوا ہے۔ اجزا میں ظاہر ہونے کے باوجود، اس مسئلے کے ضمن میں کہیں کوئی ابہام موجود نہیں ہے۔ اس مسئلے کی سب سے اہم جہت یہ ہے کہ ملت کو شناخت کے بحران کا سامنا ہے۔ یہ بحران، ملت کے مفہوم ومطلب کا نہیں، ملت کے انتشار، تاریخی چیلنج کی ناقص تفہیم اور عمل سے گریز کا بحران ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بحران علمیاتی نہیں، وجودیاتی اور تاریخی ہے۔ ان مکاتیب کے مطالعے سے محسوس ہوتا ہے کہ اس بحران کی جڑیں نوآبادیاتی تاریخ میں ہیں۔ نوآبادیاتی تاریخ کا تجزیہ، ان مکاتیب کا مقصود نہیں، نو آبادیاتی اثرات کے سلسلے میں شدید حساسیت اور ان کی واضح تفہیم اور پھر ایک عملی اقدام، ان مکاتیب کا منشا ہے۔ یہی چیز، ان مکاتیب کو ردّ نوآبادیاتی تجزیے کے لیے موزوں بناتی ہے"۔