Professor Sarwar Ul Huda Ki Khidmat Mein Arz Hai
پروفیسر سرور الہدی کی خدمت میں عرض ہے

کل برادرم سرور الہدی صاحب نے اپنی فیس بک وال پر میرے نام ایک مراسلہ لکھا۔ وہ اس مراسلے کو مکالمہ بنانا چاہتے ہیں: وقت کے مسئلے پر۔ میں خود کو اس قدیمی، ازلی، پیچیدہ مسئلے پر گفتگو کا اہل نہیں پاتا۔ مگر امتثال امر کے طور پر ان کے پہلے سوال کے جواب میں کچھ عرض کرنے کی کوشش کی ہے۔
سرور صاحب کا پہلا سوال یہ تھا: "وقت کے بارے میں ہر ذہین اور حساس شخص سوچتا ہے۔ کبھی یہ سوچنا شعور کا حصہ نہیں بن پاتا۔ غیر محسوس اور غیر منطقی طور پر وقت پریشان کرتا ہے۔ ایک لمحے یا ایک سال کا گزر جانا، دونوں میں فرق تو ضرور ہے، مگر اس بارے میں غور کرتے ہوئے آپ نے کیا محسوس کیا"۔
احباب کی دل چسپی کے خیال سے اپنی معروضات یہاں پیش کررہا ہوں۔۔
آپ نے صحیح کہا، وقت کےبارے میں ہم سوچیں یا نہ سوچیں، وقت ہمیں پریشان کرتا ہے۔ میرے لیے تو وقت چکرا دینے والا مسئلہ رہا ہے۔ وقت کے بارے میں پڑھتے ہوئے بھی چکرا جاتا ہوں، اسے پر غور کرتے ہوئے بھی اور اس کے اثرات کو سمجھنے کی کوشش میں بھی۔
اس لمحے بھی، جب آپ کے سوال کا جواب لکھنے کی کوشش کررہا ہوں، چکرا دینے کی کیفیت ہے۔ اس لیے کہ ہم وقت سے باہر، ایک پل کے لیے نہیں ہیں۔ میں جب وقت کے بارے میں قدیم فلسفیوں، مذہبی مفکروں، صوفیوں، جدید سائنسی نظریات پڑھتا ہوں، اس دوران غور کرتا ہوں، پھر کوئی نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کرتاہوں تو ہرہر مقام پر وقت شامل ہوتا ہے۔ وقت پر تفکر میں بھی وقت شامل ہے۔ یہ کہ "وقت پر تفکر میں بھی وقت شامل ہے" یہ جملہ کہنے اور لکھنے میں بھی وقت شامل ہے۔ یہ جملہ جہاں سے شروع ہوتا ہے، جہاں جہاں سے گزرتا ہے اور جہاں ختم ہوتا ہے، ان تینوں مقامات میں بھی وقت شامل ہے۔ وقت سے باہر کچھ نہیں۔
ہر جملہ دراصل، ایک خیال ہے۔ خیال ایک رواں چیز ہے۔ اس لیے وقت، خیال میں بھی شامل ہے۔ یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ خیال، وقت کے بغیر وجود ہی نہیں رکھتا۔ اب آپ ہی بتائیے کہ آدمی چکرائے نہ تو کیا کرے؟ خود چکرانے کے عمل میں بھی وقت شامل ہے۔ آدمی کرے تو کیا کرے؟ چوں کہ آدمی کچھ نہ کچھ کرنے والی مخلوق ہے، اس لیے میں وقت کے سلسلے میں چکرانے کے علاوہ، کچھ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
آغاز یہاں سے کرتا ہوں کہ ایک جملہ، ایک خیال کا حامل ہے۔ خیال میں وقت رواں ہے اور وقت میں خیال۔ مجھے لگتا ہے کہ وقت کے لیے دریا کا استعارہ، خیال کی ماہیت ہی سے ماخوذ ہے۔ خیال مسلسل رواں رہتا ہے، جس طرح دریا۔ جب خیال کسی جملے میں ظاہر ہوتا ہے تو اب ایک نئی صورت سامنے آتی ہے۔ ایک وقت خیال کا ہے، دوسرا جملے کا۔ خیال کا وقت ایک مسلسل گزراں حقیقت ہے۔ یعنی خیال کے دریا میں ایک ہی مقام پر دوجگہ قدم نہیں رکھا جاسکتا، مگر ایک جملے کے وقت کو باربار گزرتے محسوس کیا جاسکتا ہے۔
گویا جملے کا وقت، ایک "ابدی حال "ہے۔ خیا ل میں رواں وقت میں مسلسل تبدیلی ہے اور مسلسل تبدیلی کا مطلب، مسلسل فنا اور جنم کا چکر ہے۔ جب کہ جملے کا "ابدی حال"، مسلسل فنا اور جنم کے چکر سے باہر ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ فن نے اس حقیقت کو سب سے زیادہ سمجھا ہے۔ فن کا محرک دریا کی مانند وقت ضرور ہے، مگر خود فن میں ظاہر ہونے والا وقت دریا نہیں ہے۔ ایک دریا میں ایک مقام پر دوبار قدم نہیں رکھا جاسکتا، مگر فن کے وقت میں ایک ہی مقام پر کئی بار قدم رکھا جاسکتا ہے۔ ایک مجسمہ، پینٹنگ، شعر، گیت، فکشن "ابدی حال" کا حامل ہے۔
آپ چاہیں تو میری ان باتوں کو وقت کے چکرا دینے والے سوال کی جارحیت سے بچنے کی کوشش کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔
باقی، یہ بات درست ہے کہ ایک لمحے اور ایک سال کے گزرنے میں فرق ہے۔ لمحہ اور سال، دونوں وقت کے مقداری پیمانے ہیں۔ ایک چھوٹا، دوسرا بڑا پیمانہ ہے۔ میں پہلے ایک سال کے گزرنے کو شدت سے محسوس کرتا تھا۔ سودوزیاں کا حساب کرتا تھا اور ہر بار سودکم، زیاں زیادہ دیکھتا تھا۔ ہر مقداری پیمانے کا مقدر، سودوزیاں ہی ہیں۔ اب میں ایک سال کے گزرنے کو، کیلنڈر کا ایک صفحہ پلٹنے کے طور پر دیکھتاہوں۔ مجھے مقداری پیمانے کے بجائے، معیاری مقیاس اہم محسوس ہوتا ہے۔ ہندسے سے زیادہ تجربہ۔ ناپ تول، اعداد وشمار کے بجائے، کیفیات واحساسات و آگہی ودانائی۔