Main Kis Se Panah Mangoon?
میں کس سے پناہ مانگوں؟
"ملا، آپ گھبرا کیوں رہے ہیں؟ میں آپ کے لیے اجنبی تو نہیں ہوں۔ آپ ہزاروں بار میرے بارے میں لوگوں کو بتا چکے ہیں، اور اس تفصیل اور اعتماد سے کہ جیسے میری ایک ایک رگ سے واقف ہیں۔ میری ایک ایک بات سے۔ میری صورت، خصلت، میری ساری بدی سے۔ جیسے یہ سب آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو اور میرے سلسلے میں آپ کو کوئی شک نہ ہو۔ جسے جانتے ہوں، اس سے ڈرکیسا؟"۔ شیطان کے لہجے میں اب شکایت تھی۔
"وہ سب میں نے پڑھا اور سنا ہے"۔ ملا بدستور گھبرایا ہوا تھا۔
"اس پر ایمان بھی تو رکھتے ہو"۔ شیطان بولا۔ "یہ بھی ایمان رکھتے ہو کہ عزرائیل جان لے سکتا ہے، عزازیل نہیں۔ اس لیے کیوں ڈرتے ہو؟"
"ت۔۔ ت۔۔ تم مجھ سے کیا جاننا یا پوچھنا چاہتے ہیں؟" مُلا نے یہ کہنے سے پہلے کئی سورتیں دہرائیں۔
"میں کئی لوگوں کے پاس گیا ہوں۔ کوئی میری مدد نہیں کرسکا۔ شاید آپ میری مدد کرسکیں۔ میں زمانوں سے کیا کیا جھیل رہا ہوں، مُلا شمس الدین۔ آپ گھر میں بیٹھ کر میری بات اطمینان سے سنیے"۔ شیطان نے درخواست کے انداز میں کہا۔
"اگر۔۔ میں۔۔ نہ سنوں"۔ ملا نے کچھ ہمت کی۔
"تو میں یہ سمجھوں گا کہ آپ کا علم دین ایک ڈھونگ ہے۔ آپ کسی گمراہ، مایوس، دھتکارے ہوئے کی اس وقت بھی مدد نہیں کرسکتے، جب وہ آپ کے دروازے پر آیا ہو۔ ابھی گزشتہ جمعے خطبے میں ایک کتاب کاحوالہ دے کر، آپ کہہ رہے تھے کہ اسلام میں ایسے عالم کا کوئی مقام نہیں جو دوسروں کو فائدہ نہ پہنچائے"۔ شیطان کے لہجے میں ایک ایسی مایوسی در آئی تھی، جس سے مُلا بالکل واقف نہیں تھا۔
"لیکن اسی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ علم کو نااہلوں سے بچانا چاہیے"۔ مُلا نے شمس المعارف سے لائی گئی، شیطان کی دلیل کا ردّ پیش کیا۔ اسی لمحے مُلا کو اسی کتاب سے ایک اور بات بھی اچانک یاد آئی۔ عالم علوی سے عالم سفلی کو مدد پہنچتی ہے۔
"نااہل کون ہے کون نہیں؟ یہ بحث، مُلا چھوڑیے۔ نااہل، اہل بننے کی صلاحیت سے محروم ہوسکتا ہے، نیت سے نہیں۔ خیر نااہل اگر اصرار کرے تب بھی۔۔ " شیطان کے لہجے میں مایوسی پہلے سے بڑھ کر تھی۔ مُلا نے محسوس کیا کہ یہ انسانوں کی مایوسی سے یکسر الگ تھی۔ انسانوں کی مایوسی میں ایک نامکمل پن رہتا ہے، وہ مکمل ہونے سے پہلے تحلیل ہونے لگتی ہے۔ انسانوں کی مایوسی کا رنگ سرمئی ہوتا ہے۔ شیطان کی مایوسی اماوس کی رات تھی۔ کامل، بے داغ، گھنی، گہری۔۔ سمندر سے گہری ظلمت۔ مُلا کا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا۔ اسے لگا کہ جیسے یاس کا ایک گھنا، دبیز، سیاہ بادل اس کی جانب بڑھ رہا ہے۔
مُلا کچھ دیر خاموش رہے۔ وہ تذبذب اور یقین کی کسی درمیانی حالت میں تھے۔ وہ مسلسل اللہ سے دعا اور شیطان سے پناہ مانگ رہے تھے۔ وہ یہ سمجھ نہیں پارہے تھے کہ کیا کہے۔ مُلا نے شیطان کے لیے ایک جذبہ محسوس کیا اور خود ہی اس جذبے سے ڈر گئے۔
"تمھاری صورت کیا ہے؟ تم تو آگ سے بنے ہو"۔ مُلا نے مشکل سے کہا، مگر اس بار وہ پہلے کی مانند خوف زدہ نہیں تھے، اور انھیں خود اپنے خوابوں میں نظر آنے والے آتشیں بگولے یاد آئے۔
"آگ، مٹی، ہوا، پانی ایک دوسرے سے الگ کہاں ہیں؟ آپ یہ بحث بھی جانے دیجیے۔ اسی بحث نے تو مجھے اس حال میں پہنچایا۔ جہاں تک میری صورت کا سوال ہے، وہ تو بالکل نہیں ہے جو آپ لوگوں نے تصور کر رکھی ہے۔ کسی نے مجھے دیکھا نہیں، مگر جہان کبیر و صغیر کی سب سیاہی میری تصویروں میں الٹا دی ہے۔ جہان صغیر آپ سب نسانوں کے دلوں کا جہان ہے۔ ویسے میں کوئی بھی صورت اختیار کر سکتا ہوں، جیسے آپ لوگ کئی صورتیں اختیار کر لیا کرتے ہیں۔ (یہ کہتے ہوئے شیطان نے قہقہہ لگایا)۔ آپ کے سامنے بس ایک سایہ سا بن کر رہوں گا۔ آپ مجھے اپنے گھر آنے کی اجازت دیجیے"۔
"ہم تیری طرح صورتیں نہیں بدل سکتے"۔ ملا نے جیسے احتجاج کیا۔
"ٹھیک کہا۔ میری طرح نہیں، مجھ سے زیادہ بدل لیتے ہیں۔ اسی لیے تو آپ سب ایک دوسرے سے، ہر وقت، ہر بات میں شاکی رہتے ہیں۔ کس انسانی دل میں، دوسرے انسان کے لیے شک موجود نہیں ہے؟" شیطان نے پھرقہقہہ لگایا۔
"تم انسانوں کے اندر داخل ہو کر ان سے یہ سب کرواتے ہو۔ تم وسوسے ڈالتے ہو۔ انسان کا خمیر خیر سے اٹھا ہے" مُلا نے اب کچھ ہمت دکھائی۔
"ملا، ہم یہاں بحث نہیں کرسکتے۔ یہاں رات کے وقت، مسجد کے سامنے یہ بحث نہیں کرسکتے کہ خیر سے اٹھے خمیر میں، میں ملعون کیسے داخل ہوجاتا ہوں؟ خدا پر پختہ ایمان والے دل میں، میں کیسے وسوسہ ڈالنے میں کامیاب ہوتا ہوں؟ خیر میں وہ رخنہ کہاں ہے، جہاں سے میں داخل ہوتا ہوں؟ یہ جھگڑا نہ شروع کریں۔ میں تو ایک درخواست لے کر آیا ہوں"۔ شیطان نے کہا۔
ملا کا ڈرکم ہوا تھا، ختم نہیں۔ کیوں نہ آج کی رات میں مسجد ہی میں گزار لوں؟ ملا نے خود کلامی کی۔
"آپ کتنی راتیں مسجد میں گزاریں گے؟ میں آپ کو ڈرانے نہیں، آپ سے مدد مانگنے آیا ہوں"۔ شیطان نے جیسے ملا کے دل کا حال جان لیا تھا۔ اب اس کے لہجے میں التجا تھی۔
(زیر اشاعت پانچویں مجموعے، "جب تک ہے زمین " سے اقتباس)۔