Kya Jangen Naguzeer Hain?
کیا جنگیں ناگزیر ہیں؟
انسانی تاریخ میں جنگوں کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ اگر محض جنگیں ہی ہوتیں توخود انسانی تاریخ اور تہذیب نام کی کوئی شے نہ ہوتی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ تاریخ نویسی میں جنگی واقعات، جنگی سورماؤں، جنگ پر اکسانے والے گیتوں اور جنگوں کے نتیجے میں طاقت و حکومت حاصل کرنے والوں کو بہت زیادہ اہمیت ملی ہے؟ کیا اس لیے کہ جارحیت انسان کی سب سے طاقت ور جبلت ہے؟ کم ازکم جنگوں کی تاریخ سے یہی بات باور کرانے کی کوشش ملتی ہے۔
جنگوں کی تاریخ پڑھیں تو یوں لگتا ہے جیسے جارحیت اور جنگجوئی، انسان کی بنیادی جبلت ہے اور وہ سب لوگ پرشکوہ قصیدوں کے مستحق ہیں جنھوں نے اس جبلت کی اندھی طاقت کے اظہار میں کسی شے کی پروا نہ کی، نہ انسانی جانوں کی، نہ فصلوں، درختوں، پرندوں کی اور نہ اخلاقی ومذہبی اقدار کی۔ لیکن انسانی تہذیب کے متعدد مظاہر ہمیں یہ احساس دلاتے ہیں کہ انسان میں جارحیت کے علاوہ تعاون اور محبت کی جبلتیں بھی ہیں اور تخیل کی غیر معمولی صلاحیت بھی۔
حقیقت یہ ہے کہ جنگ صرف انسانی امن کے لیے خطرہ نہیں ہوتی، وہ تعاون و محبت کے ساتھ انسانی تخیل کے خاتمے کے بھی درپے ہوتی ہیں۔ ہمیں اس کڑوی حقیقت کو قبول کرنا ہوگا کہ جنگوں کو پرشکوہ بنانے میں آدھا ہاتھ درباری مؤرخوں کا ہے تو آدھا ہاتھ شاعروں کا، جنھوں نے جنگی ترانے لکھے، جنگی سورماؤں کی بہادری کے قصیدے لکھے اور جنگوں میں مارے جانے والوں کی زندگی کو ابدی انعامات کا مستحق ٹھہرایا۔ بعض غیر جانب دار مؤرخوں نے جنگوں کے ثمرات بھی بیان کیے ہیں، خصوصاً متعدد نئی سائنسی ایجادات، ہتھیار، ان کی ترسیل اور خبروں کی ترسیل کے ذرائع اور کئی ادویہ، جنگی ضرورتوں کے تحت ایجاد ہوئیں۔ لیکن کیا اس سے جنگ کی نا گزیت ثابت ہوتی ہے یا مادی وانسانی ذہنی وسائل پر جنگجوؤں کا اجارہ ثابت ہوتا ہے؟ جنگی تاریخوں اور شاعری میں اس تباہی کا ذکر بہت کم ہوا ہے جو جنگوں کا لازمی نتیجہ ہوتی ہے۔ ایک جنگی سورما کی عظمت کا سارا تصوراس بربادی کا مرہون ہے جس کا نشانہ انسان اور فطرت بنتے ہیں۔
البتہ بیسویں صدی کے فکشن میں عالمی جنگوں کی بربادی کو موضوع ضرور بنایا گیا اور جنگ سے لوٹنے والے سپاہیوں کی یادداشتوں میں جنگ کی بربادی کے مناظر پیش ہوئے۔ بایں ہمہ مجموعی طور پر تاریخ اور شاعری نے جنگ کو ایک پرشکوہ بیانیہ عطا کیا ہے۔ رہی سہی کسرجدید دور کے مذہبی اورقوم پرستانہ نظریوں نے پوری کردی ہے۔ چناں چہ آج بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد جنگ کو بہادری، جرأت اور غیرت کے ایک مظاہرے کا ذریعہ خیال کرتی ہے۔ کچھ لوگ جارحانہ اور مدافعانہ جنگ میں فرق کرتے ہیں لیکن دونوں صورتوں میں وہ جنگ کو ناگزیر خیال کرتے ہیں
کیا جنگیں واقعی ناگزیر ہیں؟ کم ازکم اس وقت جنگوں کے حاوی بیانیے جنگ کو ناگزیر خیال کرتے ہیں اور اس کے حق میں کئی دلائل دیتے ہیں۔ ہر جنگ کو ایک جواز اور ایک بیانیہ درکار ہوتا ہے۔ جو لوگ جارحانہ جنگ میں یقین رکھتے ہیں، ان کا بیانیہ یہ ہے کہ اگر آپ جارحیت کا مظاہرہ نہیں کریں گے تو مد مقابل اس مظاہرے میں پہل کرے گا اور آپ کو نیست ونابود کردے گا۔ مدافعانہ جنگ کا بیانیہ یہ ہے کہ ہم جنگ شروع نہیں کریں گے لیکن اگر دشمن نے جنگ مسلط کی تو ہم اس کی آنے والی نسلوں کو سبق سکھانے میں پس وپیش نہیں کریں گے۔ دونوں بیانیوں میں نہ صرف جنگ کو جائز سمجھا جاتاہے بلکہ جنگ کی تیاری کو سب سے بڑامذہبی و قومی واخلاقی فریضہ خیال کیا جاتا ہے اور جنگ کی تیاری کس طرح ایک اہم ترین معاشی وتجارتی اور بڑی حد تک سیاسی سرگرمی ہوتی ہے، اس سے توجہ ہٹانے کا پورا اہتمام ہوتا ہے۔ ساری گڑ بڑ جنگ کے جائز ہونے کے تصور میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا جنگ کے جائز ہونے کا کوئی ایسا تصور اب تک پیش ہوسکا ہے جس پر کسی ایک قوم کے سب افراد بھی اتفاق کرتے ہوں؟
جس قوم کی طرف سے جنگ کا آغاز کیا جارہا ہوتا ہے، کیا اس قوم کے سب گروہ اس کی تائید کرتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ صرف تین گروہ اس کی تائید کرتے ہیں۔ عسکری رہنما، سیاست دان اور میڈیا۔ یہ تینوں قوم کے ترجمان ہونے کے مدعی ہوتے ہیں۔ کیا حالتِ امن میں ان تینوں سے عوام نے کبھی مطمئن ہونے کا اتفاق ظاہر کیا ہوتا ہے؟ یہ تینوں ان سب آوازوں کو اپنی طاقت، ترغیب اور قوم پرستی کے مقدس بیانیوں سے خاموش کرانے میں اکثر کامیاب ہوتے ہیں جو جنگ کی مخالف ہوتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں عین جنگ کے خطرے کے دوران میں داخلی سطح پر ایک کش مکش پیدا ہوتی ہے۔ طاقت اور معقولیت کی کش مکش۔ رہنما اور میڈیا کی طاقت ایک طرف اور عقل کے ذریعے تمام تنازعات کو حل کرنے والوں میں یقین رکھنے والے دوسری طرف ہوتے ہیں۔ جنگ کی مخالفت کا مطلب ہرگز اپنی قوم کی بقا کو لاحق خطرات سے صرف نظر کرنا نہیں اور نہ کسی دوسرے گروہ کے جارحیت سے غفلت برتنے کا خیال پیش کرنا ہے۔
جنگ کی مخالفت کا سیدھا سادہ مطلب، دنیا کے تما م انسانوں، تمام قوموں کو یہ باور کرانا ہے کہ معقولیت، طاقت کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہم، پر اثر اور ہر طرح کے تنازعات کے حل میں کارگر ہے۔ نیز قوم کی بقا، اس کے افراد کی با عزت، پرامن، خوشحال زندگی اور ان کی تمام تر صلاحیتوں کے آزاد بہ اظہار کے مواقع سے الگ چیز نہیں ہے۔ جنگ کی مخالفت در اصل کچھ بنیادی باتوں میں یقین کے اظہار کے سوا کچھ نہیں۔ ایک یہ کہ دنیا کے تمام انسانوں کو اپنی طبعی زندگی اپنی منشا اور اختیار کے تحت جینے کا حق ہے۔ کسی ایک شخص کو بھی بغیر جرم کے مارنے کا حق دنیا کے کسی انسان یا گروہ کو نہیں۔ ان کی موت کا فیصلہ قدرت خود اپنے طبعی قوانین کے تحت کرسکتی ہے قدرت کا نام پر، بارود کی طاقت کے نشے میں سرشار گروہ نہیں۔ دوم یہ کہ تعاون کا جذبہ، مخاصمت کے جذبے سے زیادہ طاقت ور ثابت ہوسکتا ہے بشرطیکہ اسے ظاہر ہونے کا موقع ملے۔ جنگیں مخاصمت کے جذبے کو ہوا دیتی آئی ہیں۔
مخاصمت کا جذبہ ظاہر ہونے کے بعد بڑھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ میں شکست کھانے والے ایک نئی اور بڑی جنگ کی لازماً تیاری کرتے ہیں۔ دوسری طرف تعاون کا جذبہ بھی ظاہر ہونے کے بعد بڑھتاہے۔ ایک تنازع پر بات چیت شروع ہوتی ہے تو باقی تنازعات کو بھی حل کرنے کی راہ نکل آتی ہے۔ معقولیت کا ایک قدم آگے کی کئی رکاوٹوں کودور کرتا ہے، جیسے روشنی کا ایک نقطہ رفتہ رفتہ تاریکی کو شکست دینے کے قابل ہوجاتا ہے۔ ہر جنگ کا آغاز ذہن سے ہوتا ہے۔ لہٰذا ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ جنگوں کے خاتمے کا آغاز بھی ذہن سے ہوگا۔ جنگ دشمنی کے خیالات سے شروع ہوتی ہے۔
جسے دشمنی کہا جاتا ہے وہ در اصل اس تصورِ دنیا کا نتیجہ ہے جس کی بنیاد ثنویت پر ہے۔ ہم چیزوں کو ان کی ضد سے پہچانتے ہیں: سفید وسیاہ، بہادرو بزدل، مضر ومفید، محبت ونفرت، عورت ومرد، خیر وشر، حسین و وقبیح۔ یہ چند اضدادی جوڑے ہیں۔ ایک حد تک یہ فطری ہے کہ ہم سیاہ کو سفید کی ضد سے شناخت کریں یا حسین کو قبیح کی ضد سے پہچانیں، لیکن جب ایک حد، سے آگے جاکر اسے ایک لازمی اصول بنالیں اور اس اصول کو اپنے تصورِ دنیا کی بنیاد بنالیں تو دشمنی کا آغاز ہوجاتاہے۔ ہمیں ہر وہ چیز، ہر وہ شخص، ہر وہ ملک، ہر وہ مذہب، ہر وہ فکر یا ہر وہ طرزِ حیات اپنا دشمن نظرآنے لگتا ہے، جو ہم سے مختلف ہوتا ہے۔ دشمن ہے ہی وہ شخص جو آپ سے یکسر مختلف ہے اور ا س کا مختلف ہونا، اس کے شر کا باعث ہے۔ جب آپ مشرق اور مغرب کو ایک دوسرے سے یکسر مختلف سمجھتے ہیں، یا کلاسیکیت و جدیدیت کو ایک دوسرے سے بالکل مختلف خیال کرتے ہیں، یا پاکستان کو بھارت سے یکسر مختلف تصور کرتے ہیں تو نتیجہ دونوں میں دشمنی کی صورت میں نکلتا ہے۔
جب ہم، اور وہ، کے دوزمرے بن جاتے ہیں، تو ہم، سے وابستہ ہر چیز اچھی، مگر وہ، سے منسلک ہر شے بری اور قابلِ نفرت ہے۔ ہم، اور وہ، کے جوڑے خواہ مرد اور عورت کے سلسلے میں ہوں، دو فرقوں، دو مذہبوں کے حوالے سے ہوں، یا قوم پرستی کے جنوں کے حامل دو ملکوں کے ضمن میں ہوں، ایک لازماً درجہ بندی قائم ہوجائے گی: ایک عظیم، اچھا، قابل تقلید ہوگا اور دوسرا کم تر، برا، قابل نفرت ہوگا۔ چناں چہ ہم، کی قصیدہ خوانی کا لازمی نتیجہ ہجو کی صورت نکلے گا۔ جب یہ ثنویت اور درجہ بندی ایک طویل عرصے تک ذہنوں کا حصہ بنی رہتی ہے تو ہم، کے عظیم ونیک اور وہ، کے معمولی و بد ہونے کا خیال بالکل فطری محسوس ہونے لگتا ہے۔
کم از کم جدید دنیا میں کوئی جنگ اس ثنویت کے بغیر نہ شروع ہوتی ہے، نہ جیتی جاسکتی ہے۔ عوام کی شرکت کے بغیر جنگ شروع نہیں ہو سکتی اور عوام اس وقت شریک جنگ ہوتے ہیں جب وہ، وہ، کو بدی اور شر کا حامل خیال کرتے ہیں۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوئی جنگ اچانک شروع نہیں ہوتی، اس کی تیاری طویل عرصے سے کی جارہی ہوتی ہے۔ ایک آخری بات! اسی ثنویت کی وجہ سے جنگ میں ایک ملک، ایک گروہ یا فرقے کے عام لوگ جب کثرت سے مارے جاتے ہیں تو دوسرے ملک کے لوگوں کو اس کا افسوس نہیں ہوتا۔ ثنویت، ذہنوں میں دوسرے ملک، دوسرے فرقے، دوسرے مذہب کے سب لوگوں کے بارے میں ایک سٹیریو ٹائپ پیدا کرتی ہے۔ سٹیریو ٹائپ کے زیر اثر لو گ دوسروں کی بنیادی انسانی صفات۔۔
یعنی یہ کہ وہ بھی دکھ، زخم، موت کے المیے کو محسوس کرتے ہیں، نیز ان کے بیوی بچے، والدین، بہن بھائی، دوست عزیز ہوتے ہیں جو نہ صرف ان سے بے حد محبت کرتے ہیں بلکہ ان کے بغیرجینے کا تصور بھی نہیں کرتے۔۔ سے لاتعلق اور بے حس ہوجاتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ ان کی موت کا جشن بھی منایا جاتا ہے۔ یہ اسی سٹیریو ٹائپ فکر کا کیا دھرا ہے کہ جب پاکستان ہی میں کسی ایک اقلیتی مذہبی گروہ کے افراد مارے جاتے ہیں تو ان کا افسوس دوسرے فرقے کے لوگوں نہیں ہوتا۔ یہی صورت سرحدوں پر دوسرے ملک کے فوجیوں کے مرنے کی صورت میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان کے لیے جہنم واصل ہونے، نرگ میں جانے جیسے الفاظ کیا ظاہر کرتے ہیں؟ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہاں بھی جنت وجہنم اور نرگ وسورگ کی ثنویت کام کررہی ہوتی ہے۔ ہمارے سورماؤں، کے لیے سورگ اور ان، کے جنگجوؤں کے نرک۔