Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nasir Abbas Nayyar
  4. Karoonjhar Se Karachi Tak

Karoonjhar Se Karachi Tak

کارونجھر سے کراچی تک

برادرم خلیل کنبھار دو تین سالوں سے کارونجھر آنے پر اصرار کررہے تھے۔ کبھی کوئی مصروفیت، کبھی کاہلی اور کبھی لمبے سفر کا ڈر حائل ہوجاتا۔ اس بار بھی یہ سب وجہیں موجود تھیں مگر سائیں رفعت عباس اور رانا محبوب اختر صاحب نے کچھ ایسی محبت سے اصرار کیا کہ انکار کی مجال نہیں تھی۔

ایک ناگزیر مصروفیت کے سبب میں رانا صاحب کے ساتھ ان کی گاڑی میں آنا ممکن نہیں تھا تو انھوں نے دوسرا راستہ نکالا۔ لاہور سے کراچی بذریعہ جہاز، کراچی سے حیدرآباد بذریعہ کار، جہاں ڈاکٹر اسحاق سمیجو میزبان تھے اور حیدرآباد میں ایک رات کے قیام کے بعد بذریعہ کار کارونجھر براستہ بدین اور مٹھی۔ علی دوست اور پروفیسر ممتاز کلیانی کے ہمراہ۔ ایک لمبا مگر یادگار سفر۔

پہلے رانا صاحب کی کتاب "سندھ گلال" کی تقریب پذیرائی تھی، جسے دو گھنٹے مئوخر کیا گیا کہ ہم تاخیر سے پہنچے۔ اس تقریب میں کتاب کے تعلق سے فکر انگیز گفتگو کی گئی۔

تھکے ہوئے تھے مگر روپلو کولھی موٹل میں احباب سے ملُ کر سب تھکان جاتی رہی۔ دوست، ہر دکھ کا علاج ہوتے ہیں۔

اسی شام ساون مشاعرہ تھا، جس سے پہلے مجھے شاعری پر گفتگو کرنا تھی۔ مشاعرے کی روایت میں یہ ایک نئی "بدعت" تھی جس کا سارا گناہ ثواب خلیل صاحب کو جاتا ہے۔ میں نے وہاں"شاعری نسل انسانی کی مادری زبان ہے" کے عنوان سے ایک مضمون پڑھا، جسے کل، یہاں شئیر کروں گا۔

اسی روز سندھ کابینہ نے کارونجھر پہاڑ کے اکیس ہزار ایکڑ کو قومی ورثے میں شامل کیا۔ اللہ رکھیو کھوسو اور خلیل کنبھار کی جدوجہد جزوی طور پر کامیاب ہوئی۔ یہ لوگ پورے سلسلہ کوہ کو ہوس زر کا نشانہ بننے سے بچانا چاہتے ہیں۔

اگلی صبح مہمانوں کو کارونجھر کے جبل کے دامن میں کے جایا گیا جہاں ایک قدیم شیو مندر ہے۔

کارونجھر کے پہاڑ زیادہ تر گلابی ہیں، کہیں ہلکا سرمئی، خاکی رنگ بھی ہے۔ یہ پہاڑ محض پتھر نہیں ہیں، فطرت کی قوت ایجاد و تخلیق کا عظیم الشان مظہر ہیں۔ ان میں شکلیں، صورتیں، چہرے، خال و خط، چتون، اقلیدسی خاکے، سررئیل مصورانہ صناعی، اور جانے کیا کیا کچھ ہے۔ یہ پہاڑ خاموش نہیں ہیں۔ ان کے پاس اظہار کے صدہا پیرائے، ہزاروں اسالیب اور درجنوں رمزیں، غمزے اور اشارت، عبارت ہے۔ یہ اس زمین پر فطرت کی صناعی کا بے محابا اظہار ہیں۔

کاسبو میں پیر راما کا مندر ہے۔ اس مندر کے پاس ایک چبوترے پر ناشتہ کیا جس میں شہد، پھلیاں، سبزیاں سب مقامی تھیں۔ صرف ہم باہر کے تھے۔

استاد یوسف فقیر نابینا سے شاہ لطیف کا کلام اور کارونجھر کا گیت سنا۔ ایک درخت کی چھاؤں میں دری پر بیٹھ کر سندھی شاعری سننا عجب پر لطف تجربہ تھا۔

کاسبو میں بس ایک کمی تھی، مور کم دکھائی دیے۔

اسی روز ڈاکٹر فاطمہ حسن اور تسنیم عابدی کے ہمراہ کراچی پہنچا، جہاں احمد شاہ صاحب نے مجھے آرٹس کونسل میں"شہر اور شاعری" پر ایک لیکچر کے لیے مدعو کیا تھا۔ اس کی روداد بعد میں۔

خلیل کنبھار اور باقی سب احباب کو اتنی اچھی تقریب منعقد کرنے پر مبارک باد۔ اس تقریب کو سالانہ تقریب بنانا چاہیے اور مزید زبابوں کے ادیبو ں کو مدعو کرنا چاہیے۔ قومی ہم آہنگی کے لیے اس نوع کی تقاریب اور تخلیقی انسپریشن کے لیے اس جیسی جگہ سے بہتر کچھ نہیں۔

Check Also

Jadeed Maharton Ki Ahmiyat, Riwayati Taleem Se Aage

By Sheraz Ishfaq