Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Nasir Abbas Nayyar/
  4. Insani Tajurba, Jagha Aur Shehar

Insani Tajurba, Jagha Aur Shehar

انسانی تجربہ، جگہ اور شہر

انسانی تجربہ خاص وقت میں، کسی خاص مقام پر کیے گئے تجربے تک محدود نہیں۔ یعنی حیرت، خوف، نشاط، رنج، اداسی، مایوسی، ناستلجیا، کشف کا کوئی وقتی تجربہ، انسانی تجربے کا محض ایک جز ہے۔

انسانی تجربے سے مراد دنیا میں انسان کے بہ طور ایک باشعور ہستی کے رہنے، بسنے، سوچنے، نشوونما پانے، آس پاس اور سماج سے گفت وشنید کرنے، خواب دیکھنے، معنی قائم کرنے کے مجموعی اور جاری عمل کا نام ہے۔

انسانی تجربہ اپنے اندر عدم تکمیل کے عناصر رکھتا ہے، تاہم یہ عناصر انسانی تجربے کی کسی کجی یا خامی کو نہیں، نئی چیزوں کے لیے چشم براہ رہنے کی سچائی کے حامل ہوتے ہیں۔

یوں رہنا بسنا، انسانی تجربے کا اہم ترین جز ہے، اور رہنے بسنے کے لیے جگہ اور وہاں قیام، ناگزیر ہے۔ ایک جگہ، اگر آدمی کے لیے ناموافق ہوجائے، آدمی اس سے یا وہ آدمی سے بیگانہ ہوجائے تو دوسری جگہ، کی تلاش کی جاتی ہے۔

باہر کی جگہ، ناسازگار ہوجائے تو اندر جگہ، تلاش کر لی جاتی یا پیدا کر لی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ رہنے بسنے کا مطلب محض، جگہ سے انسیت، تحفظ اورکسی کسی وقت نشاط محسوس کرنا نہیں ہے، اکتانا بھی رہنے بسنے کے تجربے ہی کا جز ہے۔

کسی جگہ کو محسوس کرنے، اس سے داخلی ربط کی تلاش کے عمل ہی میں آدمی پر کھلتا ہے کہ وہ اس جگہ کی زبان سمجھنے سے قاصر ہے یا اپنی زبان اسے سمجھانے میں ناکام ہے۔ وہ ایک جگہ کو چھوڑتا ہے تو دوسری جگہ کا رخ کرتا ہے۔ حتیٰ کہ مثالی اور بہشت نما جگہوں کا تصور کرتے ہوئے بھی جگہ، اپنی بنیادی صورت کے ساتھ موجود ہو اکرتی ہے۔

جگہ سے کہیں مفر نہیں۔ شاعروں، فنکاروں کے لیے ان کا فن بھی جگہ، بن جایا کرتا ہے۔ مصور کے لیے کینوس، شاعر و ادیب کے لیے تحریر اور موسیقا ر کے لیے آواز جگہ، بن جایا کرتی ہے۔

غالب کو یہ ادراک تھا۔ وہ کلکتہ سے دل گرفتہ لوٹے تھے۔ دہلی واپس آنے کے بعد انھوں نے تین اشعار کی ایک غزل لکھی تھی۔ اس میں وہ ایک ایسی جگہ، رہنے کی خواہش کرتے ہیں، جہاں کوئی دوسرا نہ ہو۔ دیوار و در کے بغیر ایک گھر ہو۔ ظاہر ہے یہ جگہ خود ان کے اندر اور ان کی شاعری ہی میں ہوسکتی ہے۔ ایک جگہ، کی جگہ کوئی دوسری جگہ، ہی لیتی ہے۔ تاہم ایک جگہ دوسری جگہ کو بے دخل نہیں کرتی، اس کا تتمہ بنتی ہے اور اس کی تکمیل کرتی ہے۔ پہلی جگہ کا رخنہ، دوسری تخیلی جگہ پُر کرتی ہے۔

رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو

ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو

بے درودیوار سا اک گھر بنایا چاہیے

کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو

Check Also

Feminism Aur Hamari Jameaat

By Asad Ur Rehman