Insani Barbariat
انسانی بربریت
جانوروں کی بربریت کی حد ہوسکتی ہے۔ انسانی بربریت کی کوئی حد نہیں۔ ایک نظریے سے وابستہ کسی انسانی گروہ کی بربریت کی تو کوئی بھی آخری حد نہیں۔ اس وقت اسرائیل، غزہ میں جو کچھ کررہا ہے، وہ بربریت کی ان سب حدوں کو عبور کررہا ہے، جو پہلے کبھی ہم نے سن، پڑھ رکھی تھیں۔
جنگ کی بھی کچھ اخلاقی قدریں ہیں، ایک جینوا کنونشن ہے، مگر اسرائیل کو کسی انسانی واخلاقی قدر کی پروا نہیں۔ پروا کمزور اور بے سہارا کو ہوتی ہے۔ اسرائیل کے پاس مہلک ترین جنگی اسلحہ ہے اور پشت پر امریکا اور یورپ، حمایت اور مہلک ترین اسلحے سمیت۔ اس لیے اسے کسی کا خوف ہے، نہ کسی کے آگے جواب دہی اور احتساب کا اندیشہ۔
ہسپتال پر حملہ، طاقت کے اندھے غرور کے نشے میں کیا گیا ہے، اور خود کو کسی بھی قدرا ور طاقت کے سامنے جواب دہ نہ سمجھنے کے باعث کیا گیا ہے۔ یہ جنگی جرم ہے مگر ہم سب جانتے ہیں کہ جرم کمزوروں کی اصطلاح ہے۔ طاقت، اپنی لغت ہی نہیں، اپنی اخلاقیات بھی خود وضع کرتی ہے۔
کمزور، کمزو ر کا ساتھ دیا کرتا ہے مگر اس کا حاصل کیا ہوا کرتا ہے؟ زیادہ سے زیادہ، چند انسانی واخلاقی قدروں کا واویلا۔ بد مست طاقت ان کی پروا کہاں کیا کرتی ہے۔
ہم فلسطینیوں سے اظہار ہمدردی کرتے رہیں گے۔ بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور جوانوں کی موت پر مرثیے لکھتے رہیں گے۔ ان کے شہروں کی بربادی کے قصےان کے ادب میں آئیں گے۔ جنگی صدموں کی یادداشت ان کی آئندہ نسلوں کو منتقل ہوتی رہے گی اور وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر رویا کریں گے۔
ہم مسلم امہ نام کی ایک چیز کو جگانے کے لیے چیختے رہیں گے، اور یہ چخیں خود واپس ہماری طرف پلٹتی رہیں گی۔ کچھ دنوں میں جنگ بندی ہوگی، جو دراصل اگلی جنگ، اور پچھلی جنگ پر مزید گریہ کرنے کا وقفہ ہوگا!