Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Zinda Bhaag Ka Barhta Hua Rujhan

Zinda Bhaag Ka Barhta Hua Rujhan

زندہ بھاگ کا بڑھتا ہوا رحجان

سینئر اداکار راشد محمود نے اپنی ایک وڈیو میں پینتالیس ہزار روپے بجلی کے بل پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں چار مرتبہ دل کا دورہ پڑا مگراللہ تعالیٰ نے انہیں ہر بار زندگی دی۔ بجلی کے بل کو دیکھ کر راشد محمود نے اللہ تعالیٰ سے شکوہ کیا ہے کہ نئی زندگی کیوں دی؟ یہ شکوہ کرکے راشد محمود نے دراصل پچیس کروڑ عوام کے دلوں کی ترجمانی کی ہے۔

پاکستانی عوام جس کسمپرسی کی زندگی میں آج مبتلا ہیں، پہلے کبھی نہ تھے۔ ہر شخص اس حد تک بد دل اور مایوس ہو چکا ہے کہ وہ اپنی جنم بھومی، اپنی زمین جسے ماں کا درجہ دیتا ہے، چھوڑ کر یہاں سے نکل جانا چاہتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حکومتی کارندوں کو بھی اس کا ادراک ہوگیا ہے اور انہوں نے پاکستانیوں کو زندہ بھاگنے سے بھی روکنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں اور ہوائی سفر پر بھی ٹیکسوں کی بوچھاڑ کر دی ہے۔ ظاہر ہے لوگ ہوں گے تو ہی اشرافیہ غریبوں پر ٹیکسوں کی مد میں اپنی شاہ خرچیاں، اُدے گُدے جار ی رکھ سکے گی۔ جانوروں اور چرند پرند پر ٹیکس تو نہیں لگایا جا سکتا۔ لگے بھی کیسے کہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے دیو، موٹر ویز کے جال، ٹمبر مافیا کے مافیہ پن اور ناپید ہوتے ہوئے دیہاتوں نے جانوروں پرندوں کا بھی یا تو صفایا کر دیا ہوا ہے اور یا انہیں ہجرت پر مجبور کرد یا ہے۔

تقسیم سے قبل کی پیدائش رکھنے والے کسی بھی بزرگ سے پوچھ لیں وہ یہی کہیں گے کہ آج کے پاکستان سے انگریز کا دور ہر لحاظ سے بہترین تھا خصوصاََ انصاف اور امن و امان معاملہ میں۔ سکھ اور مسلمان ایک ہی گاؤں میں ہمسایوں کی شکل میں رہتے تھے۔ ان کے بچے ایک ساتھ کھیلتے کودتے، کھاتے پیتے تھے۔ کبھی مذہبی لڑائی جھگڑا، دنگا فساد کی ہوا تک نہیں پہنچی۔ سکھوں اور مسلمانوں میں اتنا بھائی چارہ تھا جو آج مسلمانوں کے درمیان بھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔

تقسیم کے اعلان کے بعد جب مشرقی پنجاب (بھارتی پنجاب) کو اچانک مغربی پنجاب (پاکستانی پنجاب) سے الگ کرکے بھارت کے حصے میں ٹھونس دیا گیا تو پھر ہمارے بزرگوں نے فیصلہ کیا کہ پاکستان پہنچا جائے اور اس کی وجہ فسادات تھے جن میں لاکھوں زندگیاں ختم کی گئیں۔ ان فسادات کے ذمہ دار پنجاب کی غیر جغرافیائی اور غیر فطری تقسیم کرنے کا فیصلہ کرنے والے نادیدہ ہاتھ تھے۔ یہ فسادات از خود ہی نہیں شروع ہوئے تھے بلکہ عمل اور ردعمل کا نتیجہ تھے۔ لاہور اور ننکانہ میں سکھوں کی کثیر تعداد آباد تھی اور انہیں بھی ہجرت کرنی تھی۔ ابتدا کہاں سے ہوئی اور ردعمل کہاں سے پھوٹا، یہ صرف وہی بتا سکتے ہیں جنہوں نے تقسیم کے بعد ہجرت کی ہو۔ وگرنہ ہمیں پڑھائی جانے والی تاریخ تو الٹی ہے اور اس پر سوائے مذہبی ملمع کاری کے کچھ اور نظر نہیں آتا۔ بقول شاعر:

ہیں جال وہ ہوا میں کہ آتے نہیں نظر
خوشبو بھی ہو نہ جائے گرفتار دیکھنا

کبھی کبھار دن ہو کہ رات، میرے ذہن میں ایک سوال اکثر اٹھتا ہے کہ قائد اعظم تو یقینی طور پر سیکولر تھے اور اس کا ثبوت ان کے کئی فرمودات سے مل جاتا ہے۔ سکھوں اور مسلمانوں میں بھی کوئی رنجش نہیں تھی۔ پھر پلک جھپکتے ہی فسادات کا آغاز کرکے لاکھوں بیگناہوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹنے کا ذہن کیسے پیدا ہوگیا؟ شاید دو قومی نظریہ نعرے میں روح پھونکنے کے لیے یا پھر قائداعظم کا پاکستان بنانے کی بجائے تھیو کریسی کے پاکستان کے لیے اور یا پھر شاید خالصتان کے لیے وغیرہ وغیرہ۔ بہرحال ماہرین نفسیات متفق ہیں کہ بنیادی حقیقتیں ہمیشہ بعید از عقل ہوتی ہیں۔ اس لیے تہہ تک پہنچنے کے لیے جتن کرنے اتنے ضروری نہیں اور نہ ہی اب ان کا کوئی فائدہ ہے۔

میں کس کے ہاتھوں پہ اپنا لہو تلاش کروں
کہ سارے شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

قیام پاکستان کے وقت سب سے بڑے مسائل میں ایک بڑا مسئلہ جائیدادوں کی بندربانٹ تھی۔ جو بھارتی پنجاب میں لکھ پتی تھے انہیں مملکت خداداد میں ککھ پتی بنا دیا گیا اور ککھ پتیوں کو لکھ پتی۔ ایک اندازے کے مطابق آج بھی پاکستان کے ستر فیصد مالیاتی وسائل غیرپاکستانیوں کے کنٹرول میں ہیں۔ چاروں صوبوں کے غریب عوام انہی کی وجہ سے پون صدی سے غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ معروف فلاسفر خلیل جبران لکھتے ہیں کہ "کیا تم نے مکار لومڑی کا قصہ سُنا ہے جو لوگوں کے جتھے دیکھ کر جنگلوں میں چُھپ جاتی ہے اور جب تنہا شخص یا چھوٹا جانور مل جاتا ہے تو اس پر حملہ کرکے اسے گھائل کر دیتی ہے۔ حریص انسان بھی مکار اور لومڑی کی طرح ہوتا ہے جو گھات لگائے بیٹھا رہتا ہے اور جونہی موقع پاتا ہے، کمزور سے اس کا حق چھین کر اپنے وسائل میں اضافہ کر لیتا ہے"۔

مٹھی بھر اشرافیہ، اسٹیبلشمنٹ، سرمایہ داروں، صنعتکاروں، لینڈ مافیا اور بینکرز کے قبضے میں ملک کی مجموعی دولت ہے۔ یہ گروہ لارڈ ڈلہوزی کی پالیسی لڑاؤ اور حکومت کرو، ایک قوم کو دوسری قوم سے اور ایک فرقہ کو دوسرے فرقہ سے دست و گریباں رکھنے پر کاربند ہے۔ قیام پاکستان سے قبل فرقہ وارانہ دہشتگردی کا تصور نہ تھا، لیکن یہاں اسے پیدا کیا گیا۔ بلوچوں اور پنجابیوں کو باہم دست و گریباں کیا گیا، سیاستدانوں کے درمیان نفرتوں کی دیواریں تیار کی گئیں، مساجد کو حکومتی قوانین و پالیسیوں پر مذہبی چورن پھینکنے کے لیے استعمال کیا گیا، سر تن سے جدا کی انتہا ہی کر دی گئی، مذہبی جلسے جلوسوں کی داغ بیل ڈالی گئی۔ یہاں نہ قومی، لسانی، ثقافتی تنوع کو تسلیم کیا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں پنپنے دیا جاتا ہے۔ عوامی نمائندے ملک کی کرتا دھرتا اشرافیہ کے کارندوں کا کام دیتے ہیں۔ ملک کو دیمک کی طرح چاٹنے والا اور ملکی دولت و وسائل پر لسوڑے کی گٹک کی طرح چمٹا ہوئے غیر علاقائی گروہ کی حیثیت پچھہتر سالوں سے اُن بکریوں کے ریوڑ کی مانند ہے جنہیں باغ (پاکستان) میں چھوڑ دیا گیا ہے اور وہ ہر چیز کو (معیشت، عوام) کو کُتر رہے ہیں۔

جس طرح آندھی آنے کے تاثرات گھٹن، حبس اور ہوا کے بند ہونے سے پہلے ہی نمودار ہو جاتے ہیں، اسی طرح عوام کی بھوکی ننگی حالت دیکھ کر، قوت خرید جھاگ کی طرح ختم ہونے سے، بنیادی سہولیات چھت، صحت، روزگار، روٹی کپڑا اور مکان پہنچ سے دور ہونے سے، انصاف کی ناپیدگی سے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے، مفلوج کیے گئے اذہان سے، آمدنی سے زائد یوٹیلیٹی بلز سے، مہنگائی سے، تین سو یونٹ فری بجلی کے بلند بانگ دعوؤں سے، ریہڑی بانوں، بھٹہ مزدوروں، غریبوں، مزدوروں، کسانوں، ملازموں، جن کے پاس سفید پوشی کا بھرم رکھنا بھی ناممکن ہو چکا ہے، ٹیکسوں کے نام پر رہا سہا خون نچوڑنے سے، اقلیتوں پر آئے روز ظلم سے، دھڑا دھڑ تعمیر ہوتی مساجد سے مگر اسی رفتار سے گرتی ہوئی اخلاقی و انسانی حالت سے ہر کوئی یہاں سے زندہ بھاگنا چاہتا ہے اور کسی بھی ملک میں زندگی کے چار دن امن و خوشحالی سے گزارنے کی کوشش میں ہے۔

تاثرات تو یہی دکھائی دے رہے ہیں کہ یہاں جلد یا بدیر نہ بندہ ہوگا نہ بندے کی ذات۔ چاہے یہ بیرونی مہاجرت کی شکل میں واقع ہو یا بھوک و صحت سے انتقال کرنے کی شکل میں، فرقہ وارانہ تشدد میں، خانہ جنگی میں، اور یا پھر موسمیاتی تبدیلیوں خصوصاََ شدید گرمی کی وجہ سے فانی دنیا سے کوچ کرنے کی شکل میں ہو۔

دل کے پھپولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

Check Also

Dimagh To War Gaya

By Basham Bachani