Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Shareek e Hayat Ke Intekhab Ka Event

Shareek e Hayat Ke Intekhab Ka Event

شریکِ حیات کے انتخاب کا ایونٹ

گذشتہ دنوں لاہور میں ایک منفرد ایونٹ کا انعقاد ہوا جس کا مقصد شریک حیات کا انتخاب کرنا تھا۔ اس ایونٹ میں بیس سے پینتیس سال کی عمر کے غیر شادی شدہ لڑکوں اور لڑکیوں نے شرکت کی تاکہ وہ اپنے شریک حیات کے انتخاب کے لیے قدم اٹھا سکیں۔ غالباً یہ ملکی تاریخ کا پہلا ایونٹ تھا جس میں والدین کو ایک نُکرے لگا کر شادی خانہ آبادی کے لیے شریک حیات کے انتخاب کے لیے ایک ایپ کے ذریعے لڑکوں اور لڑکیوں نے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ شادی کوئی گُڈے گُڈی کا کھیل تو نہیں کہ دو چار ملاقاتوں کے بعد جیون ساتھی بنانے کا فیصلہ کر لیا جائے۔

ایسے ایونٹس کا انعقاد خاندانی سسٹم کو جو کہ ابھی تھوڑا بہت باقی ہے، جڑوں سے اکھاڑنے کی طرف ایک قدم ہے۔ انمٹ حقیقت یہ ہے کہ دنیا داری بارے نوجوان نسل ہر معاملے میں والدین سے کم علم ہوتی ہے۔ یہ جذبات میں بہہ کر فوری فیصلہ کر لیتے ہیں۔ ان میں گھاگ پن ناپید ہوتا ہے۔ ان کی سوچ محدود اور ناک کی سیدھ میں ہوتی ہے۔ یہ اپنی تعلیم پر اتراتے ہیں حالانکہ تجربہ کے سامنے تعلیم ایسے ڈھے جاتی ہے جیسے ریت کا گھروندا۔ جبکہ والدین نے اپنی زندگی میں سینکڑوں ہزاروں پاپڑ بیلے ہوتے ہیں۔ سرکاری و نجی اداروں کی لوٹ مار سے واقف ہوتے ہیں۔ شاطر زمانہ کو بخوبی سمجھتے ہوتے ہیں۔ ان کے سر کے بال دھوپ میں نہیں بلکہ ادارہ جاتی دہشتگردی کا مقابلہ کرتے ہوئے سفید ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کے سر کے بال ھیلمٹ پہن پہن کر نہیں جھڑے ہوتے بلکہ ان کا گنج اپنی اولاد کی پرورش کے دوران مالی و جذباتی مسائل کا سامنا کرتے اور ان کا حل تلاش کرتے ہوئے نکلا ہوتا ہے۔

والدین کو بائی پاس کرکے نوجوانوں کا خود اپنے لیے شریکِ حیات کا انتخاب کرنے کا یہ ایونٹ بھی دراصل لَو میرج ہی کی ایک شکل ہے۔ لَو میرج کا فیصلہ کرنے سے قبل والدین کی رائے لینا اشد ضروری ہے تاکہ شادی کے رواں رہنے بارے کوئی آئیڈیا مل سکے۔ بصورت دیگر لَو میرج کے شکل میں نوجوان دھوکا کھا جائیں گے۔ فیملی کورٹس میں جو خلع یا طلاق کے کیسز دن بہ دن بڑھتے جارہے ہیں، ان میں زیادہ تعداد لَو میرج ہی کی ہے۔ نوجوان نسل سرخی پاؤڈر، قد کاٹھ یا عہدہ و خوثحالی سے متاثر ہو کر فوری دل ہار بیٹھتی ہے جو کہ ان کی ڈانواں ڈول جذباتی و نفسیاتی صحت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ بقول شاعر:

اندر کے میلے پن کا ملے کس طرح سراغ
اندازہ لوگ کرتے ہیں اُجلے لباس کا

اخبارات میں آئے روز خبریں آتی رہتی ہے کہ فلاں شخص نے پولیس افسر بن کر لوگوں سے فراڈ کیا، شخص نے خود کو حساس ادارے کا ملازم ظاہر کرکے لوگوں کو بلیک میل کرتے ہوئے لاکھوں روپے اینٹھ لیے۔ یہ سب کیوں ہوتا ہے؟ صرف اس لیے کہ فراڈئیے لوگوں کی معصومیت سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور چہرے پہ چہرے لگا لیتے ہیں۔ زیادہ تر یہی صورتحال محبت کی شادی میں پیش آتی ہے۔

ایسے ایونٹس میں لیبل لگا کر یا باقاعدہ تیاری کرکے شامل ہونے والوں کا سراغ لگانے کی نوجوانوں میں اہلیت و سکت نہیں کیونکہ نوجوان موٹیویشنل اسپکرز اور سیلف ھیلپ سیریز کی کتابیں پڑھ کر سمجھ لیتے ہیں کہ اب وہ افلاطون بن گئے ہیں۔ حالانکہ ایسی کتابوں کے مصنفین زیادہ تر کاروباری لوگ ہیں۔ جبکہ کاروباری لوگوں کی ذہنیت بارے کارل مارکس تفصیل سے لکھ چکا ہے کہ یہ صرف اپنا منافع دیکھتے ہیں، انہیں گاھک کے نقصان کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ یہ لوگ منہ کے میٹھے دل کے کڑوے ہوتے ہیں۔ ان کی جو باتیں زبان سے ادا ہوتی ہیں، حقیقت ان کے بالکل الٹ ہوتی ہے اور یہی حال بینکار اور بیمہ ساز کا ہے۔ محبت کے جال میں بھی اسی طرح ایک دوسرے کو پھانسا جاتا ہے۔ صرف ظاہری چمک دمک کو دیکھا جاتا ہے۔ اسی بارے لتا نے گنگنایا تھا:

جب کہ جی چاہے نئی دنیا بسا لیتے ہیں لوگ
ایک چہرے پہ کئی چہرے لگا لیتے ہیں لوگ

تاثر یہی ابھرتا ہے کہ اس ایونٹ میں شرکت کرنے والوں نے اپنے والدین کو روایت پرست سمجھتے ہوئے بائی پاس کیا ہے۔ جنریشن گیپ ٹرم کو پلے باندھ کر والدین کو ایک سائیڈ پر کیا گیا ہے کہ وہ آج کے دور کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتے، وہ کنویں کے مینڈک ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مانا کہ آج کی نسل کے پاس بوجہ کمپوٹر، گوگل، چیٹ جی پی ٹی، اے آئی ٹولز، کافی نالج ہے، سمجھ بوجھ ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ نسل اپنے والدین کے ہم پلہ کبھی نہیں ہوسکتی کیونکہ "نواں نو دن، پرانا سو دن"۔ یہ صرف والدین ہی بہتر جانتے ہیں کہ ان کے بچوں کے لیے کونسا جیون ساتھی بہتر ہوگا۔

شادی صرف دو دلوں کا ملنا نہیں بلکہ دو خاندانوں کا ملنا ہوتی ہے۔ یہ ایک لانگ ٹرم فیصلہ ہوتا ہے جس کے لیے خوب غور و خوض کرنا پڑتا ہے۔ ذات برادری، زبان، تعلیم، قد کاٹھ، رنگ، خاندان کا پچھوکڑ وغیرہ سب کچھ دیکھ کر کوئی قدم اٹھانا پڑتا ہے۔ نیز یہ صرف والدین جانتے ہیں کہ ان کا بچہ کس قسم کا ہے اور کس قسم کی ووہٹی یا لاڑا درست ٹھہرے گا۔ اگر والدین کی نظر میں ان کا بیٹا شریف، بھلہ مانس، ذمہ دار، حساس اور تعلیم یافتہ ہے تو اس کے لیے وہی ووہٹی ڈھونڈیں گے جو ایسی ہی خصوصیات رکھتی ہو اور عمومآ ایسی خصوصیات کے لیے والدین کسی گاؤں ہی سے ووہٹی لاتے ہیں کہ شہروں میں تگنی کا ناچ نچانا والا محاورہ فورآ ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے۔ شاید یہی وجوہات ہیں کہ پرانے زمانے کی شادیاں کامیاب ہوتی تھیں جبکہ آج کی شادیاں کامیاب ہونے کے لیے کسی ایک فریق کو اپنی خو چھوڑنی پڑتی ہے یا دوسرے لفظوں میں تھلے لگنا پڑتا ہے یا سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔

بہرحال ایسے ایونٹ میں سرسری طور پر ایک دوسرے کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ اگر کسی کو کوئی پسند آ جائے تو بال والدین کی کورٹ میں پھینک دینی چاہیے۔ اگر انہیں یہ سب منظور ہو تو شریک حیات بنائے جانے میں کوئی حرج نہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سیانے ہمیشہ سیانے ہوتے ہیں، والدین کے سامنے بچے ہمیشہ بچے ہی رہتے ہیں بیشک بچوں کے بال ہی کیوں نہ سفید ہو جائیں یا گنج ہی کیوں نہ نکل آئے۔ زندگی میں صرف محبت ہی نہیں ہوتی، اور بھی کئی کام کرنے کے ہوتے ہیں۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ محبت کو زندگی کا بڑا مقصد بنانے کی بجائے اس کا محض ایک جزو سمجھنا چاہیے۔

Check Also

Samajhdar Hukumran

By Muhammad Zeashan Butt