Samaji Adam Masawat
سماجی عدم مساوات
ماہرین نفسیات و بشریات اس بات پر متفق ہیں کہ فطرتاََ ہر انسان دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ کوئی اندروں بیں ہوتا ہے اور کوئی بیروں بیں۔ کوئی تیز ترار ہوتا ہے اور کوئی سیدھا سادا بھولا بھالا۔ کوئی ہوشیار چالاک ہوتا ہے تو کوئی راقم کی طرح بھلہ مانس۔ کوئی بڑبولا ہوتا ہے اور کوئی کم گو۔ کوئی ملنسار ہوتا ہے اور کوئی تنہائی پسند۔ کوئی نمایاں ہونا پسند کرتا ہے اور کوئی پس پردہ رہناچاہتا ہے۔ کوئی نمود و نمائش کا خواستگار ہوتا ہے اور کوئی سادہ طرز زندگی کا متمنی۔
کوئی ظالم و جابر ہوتا ہے اور کوئی ہمدرد و مہربان۔ کوئی رعایا پرور ہوتا ہے اور کوئی رعایا بیزار۔ کوئی پھرتیلا و چست ہوتا ہے اور کوئی سست الوجود۔ کوئی ذمہ دار ہوتا ہے اور کوئی غیر ذمہ دار۔ کوئی لڑاکو ہوتا ہے اور کوئی صلح جو۔ کوئی بہادر ہوتا ہے اور کوئی ڈرپوک۔ کوئی ترش مزاج ہوتا ہے اور کوئی شیریں مزاج۔ کوئی قد کاٹھ میں لمبا اور کوئی چھوٹا۔ کوئی موٹا اور کوئی پتلا۔ کوئی سیانا ہوتا ہے اور کوئی بونگا جی۔ اسی طرح کوئی گورا اور کوئی کالا۔ یہ الگ بات کہ گوروں کی نہ کالوں کی، یہ دنیا ہے دل والوں کی۔
لکھنے کا مقصد یہ کہ جب ہر بندہ ایک دوسرے سے جسمانی، ذہنی، نفسیاتی، اخلاقی اور فکر و دانش میں مختلف ہے چاہے یہ اختلاف معمولی ہی کیوں نہ ہو، تو پھر سماجی مساوات یا سماجی انصاف کو مذہب، سیاست، فلسفہ، معیشت اور اخلاقیات وغیرہ کے ذریعے مکمل طور پر دنیا میں نافذ کرنا ممکن نہیں ہو سکتا۔ جب بنیاد ہی سیدھی نہ ہو تو عمارت کے سیدھے اور درست زاویے پر کھڑا ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ جہاں مختلف سائز اور ڈیزائن کے چھوٹے بڑے پانڈے (برتن) اکٹھے ہو جائیں وہاں پر ان کا کھڑک جانا معمول کی بات ہوتی ہے۔ یہاں پانڈوں سے مراد خاک کے پُتلے ہیں۔
مذہب، فرقہ، نسل، جنس کی بنیادوں پر عدم مساوات ہر گلی محلے میں ملتی ہے۔ رشتہ تلاش کرنے میں نسل، مذہب، فرقہ اور ذات پات دیکھنا بھی عدم مساوات کا سرعام اظہار ہے۔ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ امتیاز برتا جاتا ہے۔ ملازمتوں میں ان کا چند فیصد کوٹہ رکھا جاتا ہے۔ ان کی رہائشی بستیاں بھی الگ تھلگ ہی زیادہ دیکھی جاتی ہیں۔ بطور انسان جب تک سب کو ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانکا جائے گا، مساوات قائم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا۔
بغور دیکھا جائے تو سماجی عدم مساوات کی پہلی بڑی وجہ دولت کی غیر مساوی تقسیم ہے، دیگر الفاظ میں سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ برعکس اس کے، سوشلسٹ جمہوریت میں کسی ملک میں صنعتوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری کی بجائے اس ملک کی تمام دولت حکومت کی ملکیت ہوتی ہے۔
سماجی عدم مساوات کی خلیج کے وسیع ہونے کی دوسری بڑی وجہ نجکاری کا عمل ہے۔ خصوصاََ پاکستان میں جوں جوں پرائیوٹائزیشن کا عمل رفتار پکڑتا جا رہا ہے ویسے ویسے سماجی عدم مساوات کا دائرہ بھی وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ سکولوں، ہسپتالوں، ٹرانسپورٹ، سرکاری اور پبلک سیکٹر اداروں کی پرائیوٹائزیشن سے دوسرے اور تیسرے درجے کے طبقہ سے ان کی زندگی کی بنیادی ضروریات تعلیم، صحت، رہائش اور روزگار کو مشکل اور مہنگا کرکے سماجی انصاف کی دھجیاں اُڑائی جا رہی ہیں اور غریب لوگوں میں مایوسی، احساسِ کمتری اور نفسیاتی بیماریوں کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔
بھوک ننگ سے تنگ لوگ جب اپنا ردعمل ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں مختلف قسم کے حیلوں بہانوں سے ٹرخا دیا جاتا ہے اور مایوسی گناہ ہے، صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے والے کا درجہ بہت بلند ہوتا ہے، اللہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے، لالچ بری بلا ہے، چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا چاہیے۔۔ وغیرہ جیسی باتوں کی واعظ و تبلیغ کے ذریعے شانت کر دیا جاتا ہے۔ اگر عوامی پارہ آپے سے باہر ہوتا نظر آئے تو حکومتیں اپنے ٹاؤٹوں مولویوں، سرمایہ داروں، صعنتکاروں، اینکروں، کالم نگاروں او ر اداروں کو متحرک کر دیتی ہیں جو دہشتگردی، چینی کے نرخ، آٹے کی قلت وغیرہ جیسے ایشو سامنے لے آتے ہیں اور یا پھرحکومت تُرپ کے پتہ کے طور پر مذہبی کارڈ کھیلنا شروع کر دیتی ہے اور عموماً اس میں توہین مذہب کا کوئی ایشو دریافت یا ایجاد کر لیتی ہے اور یوں عوامی پارہ کا رُخ موڑنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔
مساوات اور عدل و انصاف کا معنی ہی یہ ہوتا ہے کہ ہر انسان کو بغیر کسی تعصب کے ضرورت کے مطابق ضروریات زندگی دی جائیں اور ضرورت سے زائد ہر انسان سے چھین لی جائیں۔ جب تک ایسا ممکن نہیں کیا جائے گا تب تک سماجی مسائل ختم تو درکنار، مزید بڑھیں گے کیونکہ انسان کی اچھائی، بھلائی اور برائی کا پیمانہ اس کے سماجی و معاشی آزادی اور آمدنی پر مبنی ہوتا ہے۔
عوام دوست پالیسیوں، لانگ ٹرم اور شارٹ ٹرم پروگرامز اورٹھوس منصوبہ بندی کے ذریعے سماجی عدم مساوات میں کمی ضرور لائی جا سکتی ہے۔ تعلیم، صحت، روزگار جیسی بنیادی انسانی حقوق کو بلا تفریق رنگ، نسل، مذہب، فرقہ تمام انسانوں کے لیے یقینی بنا کر سماجی عدم مساوات میں کمی لا کر مساوات کا بول بالا کیا جانا ممکن ہے۔ لیکن ایسا کرنا صرف، سوشلسٹ جمہوری معاشرہ، ہی میں ممکن ہو سکتا ہے کیونکہ، سوشلزم، میں تمام ذرائع پیداوار حکومتی تحویل میں ہوتے ہیں نہ کہ سرمایہ دارانہ نظام کی طرح چند افراد کے پاس۔ سامراجیوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ ایک ہاتھ میں تلوار پکڑ کر اور دوسرے میں مذہبی عصا تھام کر زیادہ دیر تک سامراج مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ آگ اگر جھونپڑیوں میں لگے گی تو محلوں تک بھی پہنچے گی۔
چمکے تو ہے سورج کی طرح روپ تمہارا
لیکن یہ سمجھ رکھیو کہ سورج بھی ڈھلے ہے