Monday, 14 July 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Nazar Andaz Hona, Aik Khamosh Tashadud

Nazar Andaz Hona, Aik Khamosh Tashadud

نظر انداز ہونا، ایک خاموش تشدد

کہا جاتا ہے کہ انسان کو قتل کرنے کے لیے ہمیشہ بندوق کی ضرورت نہیں ہوتی، گڑ دیکر مارنے کے مصداق بعض اوقات محض بے توجہی ہی کافی ہوتی ہے۔ توجہ، انسانی وجود کے لیے آکسیجن کی مانند ہے۔ جب کوئی ہمیں نظر انداز کرتا ہے، بار بار غیر اہم محسوس کرواتا ہے، یا موجود ہوتے ہوئے بھی ہماری موجودگی سے نظریں چرا لیتا ہے، سرد مہری سے برتاؤ کرتا ہے یا لب و لہجے میں، اشارہ کنایہ میں پاسے ہو کہتا ہے تو ہمارے اندر ایک غیر یقینی ٹیس سی اٹھتی ہے۔ یہ ٹیس بظاہر تو خاموش ہوتی ہے، مگر ہمارے لاشعور میں ایک چیخ بن کر محفوظ ہو جاتی ہے۔

ماہرینِ نفسیات کے مطابق مسلسل بے توجہی انسان کی خودی، خوداعتمادی اور جذباتی توازن کو آہستہ آہستہ دیمک کی طرح کھا جاتی ہے اور ایسے زخم دیتی ہے جن کے نشان جسم پر نہیں، مگر روح پر ثبت ہو جاتے ہیں۔ غالباً اسی وجہ سے معروف ماہر نفسیات ژونگ کہتا ہے کہ سب سے ہولناک چیز یہ ہے کہ انسان خود کو مکمل طور پر قبول کرے۔

انسانی رویے عجیب ہوتے ہیں۔ کبھی ہم جنہیں سب کچھ بتانا چاہتے ہیں، وہ سب سے زیادہ خاموش ہو جاتے ہیں اور کبھی جن سے ہمیں امید نہیں ہوتی، وہی ایک لفظ کہہ کر دل کو سہارا دے جاتے ہیں۔

ہمارے معاشرہ میں ایک تبلیغ یہ بھی کی جاتی ہے کہ کسی کو دو ٹوک الفاظ میں براہ راست انکار نہ کیا جائے۔ اگر کوئی آپ کے پاس کسی کام کی غرض سے آتا ہے، یا کوئی مدد مانگتا ہے اور کام کروانا یا مدد کرنا آپ کے بس میں نہیں تو سائل کو کورا جواب دینے کی بجائے ہوں ہاں یا گول مول جواب دے دیں تاکہ اس کے دل میں امید کی کرن جاگتی رہے اور اس کا دل نہ ٹوٹے۔ اگر ہم ذرا ڈونگھے پانی میں جا کر دیکھیں تو اسی ٹرینڈ کے تحت تاخیر سے ملنا، بات کو بار بار ٹال دینا، غیر متعلق سے جواب دینا، پیغامات کے جواب نہ دینا، فون کال نہ اٹھانا یا کال کاٹ دینا، یا ملاقاتوں میں نظریں چرا لینا وغیرہ سب کیا جاتا ہے۔ یہ سب رویے جب بار بار دہرائے جائیں تو احساس ہونے لگتا ہے کہ جسے کبھی اپنی ذات کا مرکز سمجھا، وہ اب ہمیں زندگی کے حاشیے پر بھی نہیں رکھتا۔

سوال یہ ہے کہ بے توجہی کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے؟ لوگ نظر انداز کیوں کرتے ہیں؟ یکدم پینترا کیوں بدل لیتے ہیں؟ ان سوالات کا جواب مختلف ہو سکتا ہے، جواب انسان کو درپیش خارجی و داخلی حالات اور سماجی رتبہ کے مطابق ہو سکتا ہے۔ بعض اوقات نظر انداز کرنا دانستہ عمل ہوتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات اسے "ایموشنل پاور گیم" کہتے ہیں۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ خاموشی اختیار کرکے دوسرے کو اضطراب میں مبتلا رکھا جائے تاکہ وہ مزید جھک کر آئے، مزید یتیمانہ رویہ اختیار کرے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ یاری دوستی، پیار محبت میں ایسے کھیل روح کو تھکا دیتے ہیں۔ اگر تعلق کو نبھانا ایک جدوجہد بن جائے، تو سمجھ جانا چاہیے کہ محبت کا لباس پہن کر "برتری" کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ نتیجتاً متاثرہ شخص یہ دعا کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ بقول قتیل شفائی:

یارو! کہاں تک اور محبت نبھاؤں میں
دو مجھ کو بَد دُعا کہ اسے بھول جاؤں میں

بے توجہی کی ایک اور صورت وہ ہوتی ہے جس میں کوئی شخص صرف اس وقت متوجہ ہوتا ہے جب اُسے ضرورت ہو۔ ایسے لوگ آپ کے وجود کو بطور سہولت استعمال کرتے ہیں اور جب آپ جذباتی قربت چاہتے ہیں، تو وہ غیر حاضر ہو جاتے ہیں۔ علم نفسیات میں اس صورت کو "مشروط محبت" کہا جاتا ہے یعنی اس صورت میں محبت ایک خاص وقت، فائدے یا ماحول تک محدود کر دی جاتی ہے۔ جب متاثرہ شخص کو اس صورت کا علم ہوتا ہے تو وہ لاشعوری طور پر یہ کہنے پر لاچار ہو جاتا ہے بقول شاعر:

خدا کرے کہ مِرے آنسوؤں میں بہہ جائے
وہ دل کہ جو تُجھے اپنا بنا نہیں سکتا

عدم توجہ کی ایک اور وجہ سماجی رتبہ ہے۔ ہماری ماں بولی پنجابی کا ایک اکھان ہے "خاناں دے خان پروہنے"۔ یعنی بڑے آدمی، بڑے آدمیوں سے ہی تعلق رکھنا پسند کرتے ہیں۔ امیر لوگ امیروں کو ہی پسند کرتے ہیں، آفسر لوگ افسروں کو ہی توجہ دیتے ہیں۔ بلڈی سویلین ٹرم بھی اسی کھاتے میں آتی ہے۔ بڑے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اپنے قد سے کم لوگوں کو اہمیت دینا، توجہ دینا ان کے سماجی رتبہ کے شایان شان نہیں اور ایسا کرنے سے ان کی اہمیت میں کمی ہوگی، ان کا رعب و دبدبہ مانند پڑے گا، ان کا ٹہکہ کم ہو جائے گا۔

بہرحال جب کوئی شخص نظر انداز ہوتا ہے، جب اسے سُننے والا کوئی نہ ہو، یا بطور چھان بُورا سمجھا جاتا ہو، تو ایسا شخص حقیقی تنہائی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ کیونکہ تنہائی صرف اکیلا رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ تنہائی تب اپنے جوبن پر آتی ہے جب ہم اپنی باتیں کسی سے کہہ نہ سکیں اور کہہ بھی دیں تو ایک سرد رویہ جواب میں ملے، خاموشی ملے، فالتو پن کا شائبہ نظر آئے، نظر اندازی ملے اور ایسی تنہائی ہجوم میں بھی گلہ گھوٹنے کو کافی ہے، اندر سے خاموش کرنے کو کافی ہوتی ہے۔ ایسا شخص اپنے اندر ایک سوال کے جواب کا انتظار کرنا شروع کر دیتا ہے کہ بقول شاعر:

کبھی جو وقت ملا تو پوچھیں گے اُس سے ہم
خاموشی میں چھپا وہ انکار تھا یا انتظار؟

Check Also

Imran Khan Ki Rehai Ki Nayi Tehreek

By Haseeb Ahmad