Naqsh Hain Sub Natamam Khoon e Jigar Ke Baghair (2)
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر (2)
قارئین راقم السطور کے آخری مضمون میں آپ نے ایک متاثرہ سماعت شخص کا انٹرویو کا حصہ اول پڑھا۔ آج ہم اسی انٹرویو کا آخری حصہ دوم پیش کر رہے ہیں۔
سوال: کچھ اپنی تعلیم کے بارے بتائیں۔
محمد شریف: اٹھارہ سال کی عمر میں جب ستر فیصد میری قوت سماعت کھو گئی تو میں اپنے کمرے میں بند ہو کر رہ گیا۔ میرے بہت دوست تھے۔ ہاکی کی ٹیم کے کھلاڑی گھر آتے جاتے رہتے تھے۔ جب ان کا آنا جانا بند نہ ہوا تو میں نے سختی سے منع کر دیا کہ آئندہ کوئی مجھے ملنے نہ آئے۔ یوں میں اکیلا اپنے کمرے میں رہتا اور مستقبل کی فکر مجھے کھائے جاتی تھی۔ میری راتوں کی نیندیں اُڑ گئیں اور دن کا چین ختم ہوگیا۔ یوں ڈیڑھ سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ پھر سوچ آئی کہ خالی بیٹھے رہنے سے، سوچتے رہنے سے تو کوئی بہتری نہیں ہوگی، ہاتھ پیر تو ہلانے ہی پڑیں گے، لوگوں کے مذاق کو برداشت کرنا ہی پڑے گا۔ خالی بیٹھے بیٹھے تو لوہے کو بھی زنگ لگا جاتا ہے۔ یوں طاقت مجتمع کی اور پرائیویٹ امیدوار کے تحت انٹر، گریجویشن اور ماسٹر کی ڈگریاں لیں اور کچھ کمپیوٹر کورسز کیے اور ٹائپنگ بھی سیکھی۔
سوال: اتنی ڈگریاں لینے کا عزم و مقصد کیونکر پیدا ہوا؟
محمد شریف: بنیادی طور پر تعلیم حاصل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ لوگ میری قابلیت کو دیکھتے ہوئے میری معذوری کو نظر انداز کر دیں گے، میری جسمانی خامی کا مذاق نہیں اڑائیں گے اور عزت دیں گے۔ لیکن افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ شادی بیاہ کا دعوت نامہ بھی کوئی نہیں دیتا۔ مجھے یاد ہے دفتر کے ایک ملازم کی بیٹی کی شادی تھی تو انہوں نے مجھے شرکت کرنے کا زبانی کہا۔ میں نے شرکت کی اور ملازم کی بیٹی کو دیگر ملازمین سے دس گنا زائد سلامی دی۔ دس گنا زائد پیسے دینے کے دو مقاصد تھے ایک یہ کہ بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں اور دوم اس لیے کہ زیادہ سلامی دینے سے شاید دوسرے ملازمین بھی مجھے مستقبل میں شادی میں دعوت دیں گے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بظاہریہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں مگر میں انہیں اپنی توہین سمجھتا ہوں، ھر محفل سے دھتکارا جانا گردانتا ہوں جو کہ بہت تکلیف پہنچاتی ہیں۔
سوال: آپ نے کہا کہ ڈیڑھ سال تک آپ گھر میں رہے۔ گھر میں کسی نے نہیں کہا کہ باہر نکلو اورکوئی کام کاج کرو؟
محمد شریف: گھر والوں کی طرف سے براہ راست مجھے ایسا نہیں کہا گیا۔ ہاں لیکن میں نے محسوس کیا تھا کہ گھر والوں کی آنکھیں کچھ سُنا رہی ہیں، طعنے مار رہی ہیں کہ جیسے میں مفت کی روٹیاں توڑ رہا ہوں۔ لیکن میں نے جلد ہی اس کا توڑ نکال لیااور گھر میں ایک ملازم کا کام دینے لگا۔ گھر کی صفائی کرنی، جھاڑو دینی، فرش پر گیلا کپڑا مارنا، برتن بھی دھو دینا اور سبزی بھی کاٹ دینا، ساگ بناتے وقت اس کو ڈوئی کے ساتھ گھوٹا لگانا، کپڑے پریس کرنا، جوتے پالش کرنا یہاں تک کہ کپڑے بھی دھو تا تھا۔ عام طور پر میں یہ کام رات کے اندھیرے میں، صبح سرگی کے وقت یا دوپہر کو کرتا تھا تاکہ گھر کا کوئی ممبر مجھے کام کرتا دیکھ نہ سکے اور ان کی بھی اورمیری بھی عزت نفس پر چوٹ نہ لگے۔ البتہ جب گھر والوں کو معلوم ہوا اور انہوں نے مجھے منع کیا تو میں نے عمران خان کی طرح اسلامی ٹچ لگا دیا کہ اپنا کام کرنا سنت ہے اور پھر اپنے گھر کے کام کرنے میں شرم و جھجک نہیں ہونی چاہیے۔ گھر کے کام کرنے سے یہ ہوا کہ مجھ میں اعتماد پیدا ہوا اور احساس جاگزیں ہوا کہ میرا وجود ابھی بیکار نہیں ہوا۔
سوال: گھر کے کاموں کے علاوہ اور کیا مصروفیات رہیں؟
محمد شریف: میں نے ایک لائبریری میں ممبر شپ لی تھی جو آج بھی جاری ہے۔ لائبریری سے کتابیں لا کر پڑھتا تھا۔ میری کوشش تھی کہ قوت سماعت کے کھو جانے سے جو احساس کمتری پیداہوا تھا، اس کو کسی طرح ختم یا مدھم کر سکوں۔ اسی کے پیش نظر میں نے سیلف ھیلپ سیریز کی بیشمار کتب کا مطالعہ کیا لیکن کوئی خاطر خواہ فائدہ حاصل نہ ہوسکا۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ سیلف ھیلپ سیریز کی کتب لکھنے والے زیادہ تر مصنفین بزنس مین تھے اور انہوں نے کاروباری مائنڈ سیٹ سے کتب لکھی تھیں جبکہ میرا کاروباری مائنڈ سیٹ شروع سے ہی نہیں تھا کیونکہ ایک تو کاروباری طبقہ جھوٹ، فریب، منت ترلہ، بحث مباحثہ، دھوکہ دہی، چرب زبانی اور منہ کا میٹھا دل کا کوڑا کاواقع ہوا ہے جیسا کہ کارل مارکس نے تفصیلاً لکھا ہے اور دوم یہ کہ بوجہ جاٹ نسل سے تعلق رکھنے کے دو ٹوک بات کرنے کا عادی ہوں کسی کو پسند آئے یا نہ آئے۔ علاوہ ازیں ان کتب میں منطقی طور پر کوئی بات نہیں کی جاتی۔ سارا زور صرف لفاظی میں لگا دیا جاتا ہے۔ گویا میں نے ایسی سیلف ھیلپ سیریز کو یہ سوچ کر پڑھنا ترک کر دیا کہ یہ کتابیں ایسے ہی ہیں جیسے دل بغیر دھڑکن کے یا جسم بغیر روح کے۔ پھر میں نے فلسفہ اور نفسیات کی کتابوں کی طرف رجوع کیا اور ان کتابوں نے مجھے معاشرہ میں ایڈجسٹمنٹ کے لیے کافی مدد کی۔ البتہ اس کا ردعمل یہ ہوا کہ میرا مائنڈ سیٹ آپ گریڈ ہونے کی وجہ سے عام لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنے میں دشواری پیش آئی اور لوگ باتیں کرتے کہ میں نفسیاتی مریض ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ پھر ساتھ ہی میں نے ناول، ڈرامے، افسانے، سیاست، تاریخ، شاعری الغرض مذہب کے علاوہ سب کتابوں کو مطالعہ بھی کیا تاکہ عام مائنڈ سیٹ کے ساتھ بھی کمٹمنٹ کر سکوں۔
سوال: ٹیکنالوجی نے آپ کی روزمرہ کی زندگی اور ملازمت میں کس طرح مدد کی ہے؟
محمد شریف: سچ پوچھیں تو آلہ سماعت نے میری کوئی قابل قدر مدد نہیں کی۔ مصنوعی آلات کبھی بھی قدرتی اعضاء کا کام نہیں دے سکتے۔ مددگار ٹیکنالوجی اگرچہ آج کافی جدید ہو چکی ہے لیکن یہ بہت مہنگی ہے جو ایک عام شخص کی دسترس سے باہر ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ آلہ سماعت ایک ارتعاش پیدا کرتا ہے اور چند لفظ مجھے سنائی دیتے ہیں جو کہ اکثر واضح طور پر سمجھ نہیں آتے۔ اسی وجہ سے میں احساس شرمندگی سے بچنے کے لیے گفتگو کا حصہ نہ بننے کی ہمیشہ کوشش میں رہتا ہوں۔ گروپ ڈسکشن میں تو آلہ سماعت فائدہ دینے سے زیادہ الٹا نقصان ہی دیتا ہے۔ یہ آواز کی ڈائریکشن واضح نہیں کرتا۔ چار بندے ہوں تو میں سب کا منہ دیکھوں گا کہ کس کے ہونٹ حرکت کر رہے ہیں اور کون میری جانب متوجہ ہے۔ اس طرح میں جان پاتا ہوں کہ کون مجھ سے مخاطب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں فیس ٹو فیس بات چیت کر سکتا ہوں جبکہ گروپ ڈسکشن سے بھاگتاہوں۔ بھاگنے کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بعد میں گروپ ڈسکشن میں حصہ لینے والے مجھے موضوع بحث بنا کر گروپ ڈسکشن میں پیش آنی والی مشکلات کا تذکرہ باہر آ کر لوگوں سے کرتے ہیں اور میرا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔
سوال: تو کیا کہہ سکتے ہیں کہ میری طرح سنگل فرد آپ سے بات چیت کرے تو آپ سُن سکتے ہیں؟
محمد شریف: جی درست فرمایا۔ میری قوت سماعت تھوڑی سی نہیں بلکہ پچانوے فیصد تک گر چکی ہے۔ ھیئرنگ ایڈ صرف آسرا دیتا ہے۔ کمیوینیکشین کے لیے مجھے اور بھی بہت سے چیزوں پر نظر رکھنی پڑتی ہے۔ مثلاً میں آپ کے ساتھ فیس ٹو فیس بات کر رہا ہوں۔ ارد گرد کوئی ذی روح نہیں ہے، بس میں اور آپ ہیں۔ میں آپ کے چہرے، ہونٹوں کی جُنبش، آنکھوں کی حرکت، چہرے کے تاثرات، ھینڈ شیپ، باڈی موومنٹ اور آپ کا بات کے لیے ایجنڈا سب کو بیک وقت ذہن میں رکھتا ہوں اور یوں مجھے کافی حد تک اندازہ ہو جاتا ہے کہ بات چیت میں کون سے الفاظ کا استعمال ممکن ہوگا۔ گویا مجھے بات چیت کے لیے کافی محنت کرنی پڑتی ہے اور اسی وجہ سے میں جلد تھک جاتا ہوں اور لمبی بات چیت نہیں کر سکتا۔
سوال: آپ گھر میں زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں یا آفس میں جہاں روزانہ آٹھ سے دس گھنٹے کام کرنا ہوتا ہے؟
محمد شریف: سچ پوچھیں تو جب تک میں اپنے کمرے میں رہوں تب تک میں خود کو خوش اور محفوظ سمجھتا ہوں۔ جب باہر سے یا دفتر سے گھر آؤں تو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے آگ کا دریا عبور کرکے کنارے آ لگا ہوں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ رواں دنوں جو ہمارے جنرل مینجر آئے ہیں، وہ مجھ پر بہت مہربان ہیں اور میری پوری سروس میں یہ واحد آفیسر ہیں جنہوں نے مجھے نہ صرف اہمیت اور عزت دی بلکہ ہمیشہ حوصلہ افزائی بھی کی اور میری قابلیت کو تمام سٹاف کے سامنے سراہا۔ اس لیے میں کہہ سکتا ہوں کہ کم از کم رواں دنوں، میں آفس میں زیادہ خوشی محسوس کرتا ہوں۔
سوال: خوشی غمی کی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں؟
محمد شریف: میری کوشش ہوتی ہے کہ مجھے تقریبات میں شرکت نہ کرنی پڑے۔ شادی بیاہ یا فوتیدگی کے لیے شرکت کرنا لازمی بھی ہوتا ہے۔ اس صورت میں میری یہی کوشش ہوتی ہے کہ ہجوم میں غائب ہو جاؤں۔ یا ارد گرد کہیں گھومتا رہوں یہاں تک کہ تقریب کا وقت ختم ہو جائے۔ اور یا پھر ا جنبی لوگوں میں رہوں تاکہ بات چیت کا موقع ہی نہ آئے۔
سوال: ایک پرسنل سوال، عام طور پر خصوصی افراد کو شادی کے لیے بہت مشکل سے رشتہ ملتا ہے۔ آپ کی شادی آسانی سے ہوئی یا کچھ مشکل پیش آئی؟
محمد شریف: اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سب سے زیادہ صدمات مجھے شادی سلسلہ ہی میں ہی اٹھانے پڑے۔ میری ذاتی خواہش تھی کہ لڑکی میں بھی کوئی جسمانی خامی ہو کیونکہ دوسروں کے دکھ درد، مسائل کو وہی سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے خود ان کا سامنا کیا ہو۔ لیکن گھر والے عیبوں سے پاک لڑکی کی تلاش میں تھے۔ درجنوں رشتے آتے اور جب مجھ سے بات کرتے تو مکمل نہ سن پاتا تو واپس چلے جاتے۔ یہ صورتحال میرے لیے بہت شدید الم کا باعث بنی تھی جب میں درجنوں مرتبہ ریجیکٹ کیا گیا۔ احساسِ مستردگی کی حقیقت مجھ پر اس قدر کھلی کہ ہمیشہ دعا گو رہتا ہوں کہ کوئی بھی انسان "ریجیکٹ" نہ ہو۔ یہ احساس انسان کو جیتے جی مار دینے کو کافی ہوتا ہے۔ بعد ازاں بھابی نے ایک رشتہ کروایا جو طے پا گیا۔ شادی کے فوری بعد بیگم کو مری لیکر گیا اور خوب خرچہ کیا محض اس وجہ سے کہ اس پر واضح ہو سکے کہ میں اس کا کس قدر خیال رکھتا ہوں۔ مگر بدقسمتی سے ایک ماہ ہی شادی چلی اور لڑکی نے خلع لے لی۔ مجھے معلوم تھا کہ لڑکی کا کوئی قصور نہیں، کسی تیسری پارٹی نے رنگ میں بھنگ ڈالی تھی۔ یوں لڑکی کی پھر تلاش شروع کی۔ پھر نئے سرے سے درجنوں بار مسترد ہوا۔ کئی دفعہ تو میں گھر سے ہی بھاگ جاتا تھا جب لڑکی والوں کا مجھے دیکھنے کا وقت ہوتا تھا۔ پھر ایک رشتہ فائنل ہوا جو المحمد اللہ کامیابی سے جاری ہے۔
سوال: قارئین کے لیے کوئی پیغام؟
محمد شریف: قارئین سے میں یہ درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ کسی کو مسترد نہ کریں کہ مسترد ہونے کا احساس مسترد شدہ کے لیے جہنم کی آگ سے کم نہیں ہوتا۔ اپنے بچوں کے رشتے تلاش کرنے کے روایتی طریقے کو بدلیں۔ پاکستان میں رشتہ تلاش کرنے کا طریقہ کار انسانی نہیں بلکہ جانوروں والا ہے۔ براہ راست رشتہ دیکھنے نہ جائیں بلکہ انڈائریکٹلی کسی دوست کے تعاون سے یا کسی دفتری کام کے سلسلہ میں لڑکی کے گھر والوں سے رابطہ کریں۔ انہیں اس بات کا علم نہ ہو کہ آپ رشتہ ڈھونڈنے آئے ہیں۔ باتوں ہی باتوں میں لڑکی کو بھی باآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر لڑکی پسند آ جائے اور آپ کی طرف سے سو فیصد "ہاں" ہو تو باقاعدہ رشتہ لیکر متعلقہ لڑکی کے گھر تشریف لے جائیں۔ اس طرح انسانوں کے دل ٹوٹنے سے بچ جائیں گے، احساسِ مستردگی کے روگ سے گھرانے بچیں گے۔ لڑکی کا قد چھوٹا ہے، کالی ہے، پڑھی لکھی تھوڑی ہے، موٹی ہے، س ُکی ٹہنی ہے، آنکھیں چھوٹی ہیں، ناک بڑی ہے وغیرہ وغیرہ جیسی باتوں کی وجہ سے ہمارے ہاں آئے روز رشتے مسترد کیے جاتے ہیں جو اپنے پیچھے بہت سے نفسیاتی ٹارچر چھوڑ جاتے ہیں۔ انسانی شکل و شبہات میں خامی نکالنا غیر انسانی فعل ہے کہ ناک نقشہ اللہ تعالیٰ دیتا ہے، کوئی بچہ خود نہیں لیکر آتا۔ آپ کا بہت شکریہ۔