Mulazmat Pesha Khawateen Aur Mardana Chauvinism
ملازمت پیشہ خواتین اور مردانہ شاؤنزم
گذشتہ دنوں سابق کرکٹر اور بیٹسمین سعید انور کا بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہوا جس میں انہوں نے ملازمت کرنے والی خواتین کو سماجی مسائل کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ معاشرہ میں ڈپریشن، بیروزگاری، طلاق اور گھریلو لڑائی جھگڑوں کی بنیادی وجہ گھروں سے باہر ملازمت کرنے والی خواتین ہیں۔ سعید انور نے اپنے بیان میں مذہبی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عورت گھر میں بیٹھنے والی چیز ہے۔ موصوف کے بیان پر سوشل میڈیا پر جو بھی ردعمل ہوا، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔ ہم صرف اپنی رائے قلمبند کرنا پسند کریں گے اور وہ بھی مذہبی ٹچ کے بغیر۔ کیونکہ عمومی طور پر مذہبی ٹچ بطور ایک نفسیاتی حربہ کے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ کوئی قاری رائے کے خلاف بولنے سے پہلے زیادہ نہ سہی کم از کم ایک بار تو متوقع فتویٰ صادر ہونے کا قیاس کر لے۔
پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق مرد اور عورتوں کی تعداد یکساں ہے۔ کسی ملک کی نصف آبادی کو ملک و قوم کی ترقی کے لیے استعمال نہ کرنے کی سوچ دقیانوسی سوچ ہوتی ہے۔ پاکستان کا یہ ایک بنیادی مسئلہ ہے کہ صنف نازک کو گھر کی باندی قرار دینے پر مہر ثبت کر دی گئی ہے۔ اس مہر کے خانوں میں مذہبی حوالے، نصف گواہی، مرد کی غیرت، پردہ، اور عورت کی جسمانی کمزوری بھی ٹھونسے گئے ہیں تاکہ مہر کی سیاہی نہ ہی مٹے اور نہ ہی مدھم ہوپائے۔ یہی وہ بنیاد پرستی پر مبنی سوچ ہے جس کی وجہ سے عورت اپنا مقام حاصل نہیں کر پاتی۔
قیام پاکستان سے قبل عورتوں کی باقاعدہ رسمی تعلیم کی مخالفت کی جاتی تھی۔ سرسید احمد خان اس مخالفت میں پیش پیش رہے۔ قیام پاکستان کے بعد لڑکیوں کی تعلیم کے دروازے کھلے مگر وہ بھی سرسری طور پر۔ کبھی مادر ملت فاطمہ جناح کو غدار وطن کہا گیا اور کبھی بینظیر بھٹو کی مقبولیت پر دھبہ لگانے کے لیے مذہب کا آصا پکڑا گیا اور کہا گیا مرد حاکم ہے عورتوں پر۔ ملالہ یوسف زئی نے طالبان کی تعلیم نسواں مخالفت پر جب آواز اٹھائی تو اسے گولی ماری گئی اور غدار کہا گیا۔ رواں دنوں مریم نواز کو بھی ٹک ٹاک وزیر اعلیٰ کے طعنے دیکر حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔ ہمارے معاشرہ میں بہت سی لڑکیاں ایم بی بی ایس کرنے کے بعد پریکٹس نہیں کرتیں اور ہاؤس وائف کا روپ دھار لیتی ہیں، فرسودہ نظریات و سوچ کی بھینٹ چڑھ کر گھر بیٹھ جاتی ہیں۔ جس کا خمیازہ حکومت اور مریضوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ سب حقائق پس پردہ دراصل "میل شاؤنزم" کا اظہار ہیں۔ غیرشعوری طور پر مرد، عو رت ذات کو اپنے سے کمتر سمجھتا ہے۔ ذرا گہرائی میں جا کردیکھیں توپاکستانی معاشرہ میں عور ت کی وہی حیثیت ہے جو ہندوؤں میں" اچھوت" کی ہے۔
ہمارے مذہب میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ تعلیم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ اس میں بات تعلیم کے حصول کی ہے، مرد یا عورت کی اس میں کوئی قید نہیں، یہ تمام مسلمانوں کے لیے کہا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب روایتی معاشرہ کچھ حد تک جدیدیت کی طرف پر تولنے لگا ہے اور لڑکیوں کو بھی سکول، کالج، یونیورسٹی اور پیشہ وارانہ تعلیم دی جانے لگی ہے تو پھر اگر یہی لڑکیاں ملازمت اختیار کر لیں تو کیا قیامت آ جائے گی؟ سعید انور کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ملازمت پیشہ خواتین کی وجہ سے خاندانی نظام اُدھڑ رہا ہے؟ غالباً موصوف نے مردوں کے ساتھ میل جول کے پیش نظر کہا ہے۔ ہماری دانست میں موصوف کی یہ صرف ذہنی کج روی ہے۔ ملازمت میں دفتری امور کو انجام دینے کے لیے مرد اور عورت دونوں جاتے ہیں۔ دفتر میں دفتری امور بارے بات چیت کی جاتی ہے نہ کہ ہجر وچھوڑے اور پیار محبت کے ہوکے بھرے جاتے ہیں۔ آج مہنگائی اس قدر زیادہ ہے کہ گھر کا ایک مرد زندگی کی گاڑی کو اکیلے نہیں کھینچ پا رہا۔ مرد اور عورت، خاوند اور بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں، ان میں سے کوئی ایک نکل جائے تو گاڑی نہیں چلے گی یا اگر چلے گی تو لڑ کھڑا کر چلے گی۔ یہی وجہ ہے کہ آج میاں بیوی د دونوں کمانے والے ہوں تو گھر کے اخراجات پورے ہو پاتے ہیں۔ میل شاؤنزم سے بچنے کے لیے بہت سی خواتین نے آن لائن ملازمت شروع کر رکھی ہے۔ کوئی مارکیٹنگ کرتی ہیں جبکہ کئی لیڈیز پکوان کی تراکیب کی وی لاگرز ہیں۔
ان دگر گوں حالات میں اور ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں اپنے جوہر دکھانے کے لیے ملازمت پیشہ خواتین کی حوصلہ شکنی کی بجائے حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ ملازمت میں بھی یہ خواتین دراصل علم ہی حاصل کر رہی ہوتی ہیں۔ ساری زندگی چار دیواری میں بیٹھے رہنے سے علم نہیں ملتا بلکہ گھر سے باہر کی دنیا میں جا کر اصل عملی علم ملتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ملازمت پیشہ لیڈیز کو ایک با عزت مقام حاصل کرنے کے لیے جن دشوار گزار مراحل سے گزرنا پڑتا ہے وہ اس قدر حوصلہ شکن ہیں کہ عورت میں بے ہمتی، مایوسی، کم مائیگی اور ڈپریشن پیدا کر دیتے ہیں۔ یہ ان کی بہادری ہے جو مردانہ معاشرہ میں اپنا مقام بنانے کی بھرپو ر کوشش کر رہی ہیں، نفسیاتی و سماجی ٹارچر کو خندہ پیشانی سے برداشت کر رہی ہیں۔ تعجب ہے کہ ایک طرف عورت کی ملازمت کو برا سمجھتا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف یہی مخالفین یا مبینہ مومنین اپنی زنانیوں کے علاج معالجہ کی غرض کے لیے عورت ڈاکٹر، نرس، الٹرا ساؤنڈ سپیشلٹ ڈھونڈتے ہیں۔ ایک طرف دولے شاہ کے چوہوں کایہ گروہ اپنی بیٹیوں، بہنوں کو سکول بھیجتا ہے دوسری جانب عورت ذات کی بطور ٹیچر ملازمت کو بُرا سمجھتا ہے۔
آپ ہی اپنی اداؤں پر ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
انمٹ حقیقت یہ ہے کہ عورت کے بغیر انسانی زندگی کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔ ایک عورت گھر کو، چندبا شعور عورتیں خاندان کو اور بہت سی باشعور اور تعلیم یافتہ عورتیں پورے ملک کی سماجی، معاشی، سیاسی اور اخلاقی حالتوں میں انقلابی تبدیلیاں لا سکتیں ہیں۔ گھریلو جھگڑوں، طلاق، معاشرہ میں ڈپریشن اور بیروزگاری کا عورتوں کی ملازمت سے کوئی لینا دینا نہیں اور نہ ہی ان مسائل کو ملازمت پیشہ خواتین پر تھوپا جا سکتا ہے۔ گھریلو جھگڑے تو ہماری ثقافت کا حصہ ہیں کیونکہ کچن میں بھانڈے اکثرآپس میں کھڑک جاتے ہیں۔ طلاق کی بنیادی وجہ ٹی وی ڈرامے ہیں جو نئی نئی پٹیاں پڑھاتے رہتے ہیں اور یا پھر کم عقلی کی وجہ سے طلاقیں ہوتی ہیں۔ عام طور پر میاں بیوی کی بجائے کوئی تیسری پارٹی طلاق کی راہ بناتی ہے۔
منطقی طور پرصنفی تقسیم کو دیکھے بغیر قابلیت کو سراہنا، اسے سر آنکھوں پر بٹھانا، حوصلہ افزائی کرنا جمہوریت اور میرٹ کہلاتا ہے۔ معروف کمیونسٹ نظریہ ساز اور سویت سیاستدان لیون ٹراٹسکی نے عورت کو درپیش مسائل کا بخوبی ادراک کرتے ہوئے کہا ہے کہ زندگی کے حالات کو بدلنے کے لیے لازم ہے کہ ہم انہیں عورت کی نظر سے دیکھنا سیکھیں۔ دراصل ماں ہی زندگی کا وہ فیصلہ کن نقطہ ہے جہاں معیشت اور ثقافت کے تمام تانے بانے ایک دوسرے کو قطع کرتے ہیں۔ ممتا کی آزادی کا مسئلہ سب سے پہلے رہائش، پانی، باورچی خانہ اور کپڑے دھونے، صفائی اور دوسری گھریلو مشقت سے نجات کا مسئلہ ہے۔ سماج میں عورت کی حالت کسی بھی معاشرتی نظام اور ریاستی کردار کی سب سے واضع اور ٹھوس علامت کا اظہار ہوتی ہے۔