Mera Gaon
میرا گاؤں
رواں دنوں ڈاکٹر ذاکر نائیک خبروں اور تجزیوں کی زد میں ہیں۔ اسرائیل کی بربریت ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ اقوام متحدہ کی بے بسی اور لاچارگی نے دنیا پر رعب و دبدبہ ختم کر چھوڑا ہے۔ گنڈا پور کے شوشے ختم نہیں ہو رہے۔ پی ٹی آئی کی احتجاجی سیاست نے سیاست میں بوریت کا عنصر پیدا کر دیا ہے۔ توہین مذہب کی تکرار نے اسقدر خوف کی فضا پیدا کر دی ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کل کلاں کو توہین مذہب کے ہجوم میں شامل نہ ہونا بھی توہین مذہب کے کھاتے میں ڈال دیا جائے گا۔ مہنگائی سے لوگ بلبلا اٹھے ہیں۔ بچوں کے سکولوں کی فیسیں اور پک اینڈ ڈراپ چارجز پہنچ سے باہر ہونے کی وجہ سے بچے گھر بیٹھ رہے ہیں۔ بجلی بلوں نے شہریوں کو نڈھال کرکے رکھ دیاہے۔ ٹریفک کے دھوئیں اور آلودگی نے لوگوں کو پھیپھڑوں اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ ڈینگی کے حملے جاری ہیں۔
گویا ہر طرف مسائل ہی مسائل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا پاکستانی ہنگامی طور پر سکون کی تلاش میں ہے مگر اسے کہیں سے دستیاب نہیں ہو رہا۔ کچھ کچھ راقم کی بھی یہی حالت ہے۔ اس لیے فرضی سکون کے لیے اپنے گاؤں کی تصوراتی سیر کا سہارا لیا ہے اور عین درست لیا ہے کیونکہ ماہرین نفسیات بھی اتفاق کرتے ہیں کہ جو چیز حقیقت میں دستیاب نہ ہو، اس کا خواب دیکھ لینا صحت کے لیے اچھا ہوتا ہے۔ بقول ناصر بلوچ:
دائرے بناتا ہوں اپنے گِرد خواب کے
کچھ ہے آنکھ نیند میں اور کچھ کُھلی بھی ہے
راقم السطور نے سن اسی کی دہائی میں اپنے ابتدائی چھ سال مکمل اپنے گاؤں واقع لائلپور میں گزارے۔ بعدازاں پڑھائی لکھائی کے لیے لاہور شفٹ ہو گئے اور گرمیوں کی چھٹیوں میں گاؤں جاتے تھے۔ اُس وقت ہمارے گاؤں تک ابھی بجلی نہیں پہنچی تھی، جو گاؤں سڑک کنارے تھے وہیں پر بجلی پہلے مہیا کی جاتی تھی۔ ہمارا پنڈ تقسیم سے قبل سکھوں کا پِنڈ ہوا کرتا تھا، گھر کے تمام دروازے اور کھڑکیاں لکڑی کے تھے۔ کھڑکیوں میں لوہے کے بھاری راڈ لگائے گئے تھے۔ دروازوں پر ایسی اعلی ڈیزاننگ ہوتی تھی کہ سکھوں کو داد نہ دینا کنجوسی اور بددیانتی ہوگی۔
ہمارا گھر تقریباً ڈھائی کنال کا تھا۔ گھر کا داخلی دروازہ تکونی اور محرابی شکل کا تھا جس کی اونچائی اندازاً اٹھارہ فٹ اور چوڑائی بارہ فٹ تھی۔ دروازے کے ساتھ ہی ایک بڑی ڈیوڑھی تھی اور اس میں گڈا (لکڑی کے بڑے بڑے دو پہیوں والا) بآسانی داخل ہو جاتا تھا۔ میرے نانکے اور دادکے بالکل ساتھ ساتھ رہتے تھے اور ڈیرہ بھی دونوں کا ساتھ ساتھ تھا۔ شام کو مربعے (ڈیرے) سے گڈے پر پٹھے رکھ کر دو بیل جوت کر مغرب سے پہلے گھر پہنچنا اور سیدھا ڈیوڑھی میں سٹاپ کرنا۔ بعد ازاں فئیٹ ٹریکٹر یہاں رکھا جاتا تھا۔ ہل، تن پھالی، اور مال ڈنگر بھی بیک وقت ڈیوڑھی میں آ جاتا تھا جب بارش ہوتی۔
ڈیوڑھی میں ایک دروازہ بیٹھک کی جانب کھلتا تھا اور بیٹھک کا ایک دروازہ باہر کچی گلی کی جانب بھی۔ اسی زمانے میں گڈوں کی بجائے ٹائروں والی ریڑھیاں بھی گاؤں میں ایک دو تھیں۔ گڈے کے مقابلے میں مجھے ٹائروں والی ریڑھیاں پسند نہیں آتی تھیں کیونکہ شاید احساس ہوگیا تھا کہ گاؤں کے کلچر پر حملہ ہونا شروع ہوگیا ہے۔
گھر میں ایک بڑا دالان ہوتا تھا اور اسکی چھت پر ہوا اور روشنی کے لیے ایک کونڈی جتنے سائز کا سوراخ بنایا گیا تھا، جب مینہ پڑتا تو میں چھت پر جاتا اور سوراخ پر چٹنی بنانے والی کونڈی کو رکھ دیتا تاکہ دالان کے اندر مینہ کی کنیاں نہ پہنچیں۔ چونکہ میرے ابا جی لاہور میں ملازمت کرتے تھے اور مہینے دو مہینے بعد ایک دو دن کے لیے گاؤں آتے تھے۔ اس لیے میں خود کو کافی آزاد سمجھتا تھا۔
دادا جی کے کھیتوں میں پانی لگانے کی باری پیر کی رات کو اور نانا جی کی جمعرات کی رات کو آتی تھی۔ بعض دفعہ میں دادا جی کے ساتھ کھیتوں کو پانی لگانے ڈیرے جاتا تھا جو کہ پنڈ سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ اس دوران مٹی کے تیل والی لالٹین میرے پاس ہوتی تھی۔ آٹا بنانے کے لیے خراس استعمال ہوتے تھے، خراس میں آٹا پیسنے والے کے بیل اپنے ہوتے اور ان بیلوں کی آنکھوں پر کھوپے چڑھا دیئے جاتے۔ اس دوران میں ان بیلوں کو ہانکنے کے لیے بنی کاٹھی پر بیٹھ جاتا اور گول دائرے میں خوب جھولے لیتا اور جب اترنا تو بھوں بلیاں چڑھ جانی اور گرتے گرتے بچنا۔ گرمیوں کی دوپہر کو خواتین کپڑے دھونے کھالے پر جایا کرتی تھیں جبکہ میں وہاں کھالے میں ڈُبکیاں لگاتا اور کپڑے سوکھنے کے لیے اردگرد کے کھیتوں میں گھاس پر ڈال کر اپنے کچھ "ہونے"کا تاثر پیدا کرتا۔
سردیوں میں کماد کی فصل ہونے پر گُڑ بنانے کے لیے بیلنا ہوتا۔ ساری رات گُڑ نکالا جاتا اور گرم گرم گُڑ کھانے کے مزے لیتا۔ کھیتوں میں ہل چلانے کے بعد اس میں بیج بکھیرا جاتا اور سہاگہ پھیر کے کھیت کی زمین ہموار کی جاتی۔ میں نے سہاگے پر بہت جھولے لیے اور یہیں سے جسم کا بیلنس رکھنے کی پریکٹس ہوئی۔ جب بڑی چِل آنی تو سہاگہ نے اونچا اچھلنا جس سے کبھی کبھی میں گر جاتا اور دوبارہ اٹھ کر سہاگے پر بیٹھ کر بیلوں کی ڈوریاں پکڑ لیتا۔ یہ عمل زیادہ تر فجر کی نماز کے بعد کیا جاتا تھا۔ صبح آٹھ نو بجے گھر سے ڈیرے پر ناشتہ پہنچنا۔ ناشتے میں مکھن والے پراٹھے، لسی کی چھوٹی سے چاٹی، آم، لسوڑے اور مرچ کا اچار اور گنڈا بھی ہوتا۔ چند ایک روٹیاں پونے میں باندھ کر ٹاہلی کی شا خ کے ساتھ باندھ دینی تاکہ دوپہر کو کھا لی جائے۔ شاخ پر اس لیے باندھی جاتی تھی تاکہ حشرات، کیڑ ے مکوڑوں سے روٹیاں محفوظ رہیں۔
نہانے کے لیے گھر میں ہینڈ پمپ نصب تھا جس کا پانی بہت میٹھا اور ٹھنڈا ٹھار ہوتا تھا۔ عموماََ بچے اور خواتین گھر میں نہاتی تھیں جبکہ بڑے مرد نہانے کے لیے مسجد کے ساتھ واقع کھوہ پر جاتے تھے۔ عید کے دن میں بھی ایک روز کھوہ پر نہانے گیا اور بوکی کے ساتھ چوبچے میں کھوہ میں سے پانی نکال کر بھرا۔ جب چوبچا بھر گیا تو دیکھا میرا ایک کزن چوبچے میں جان کر اندر سے کنڈی لگا کر نہانا شروع کر دیا۔ میں نے اسے اُرا پُرا کیا اور پھر فیصلہ ہوا کہ وہ میرے لیے کھوہ میں سے پانی نکال کر چوبچہ بھر دے گا۔ یہ شرارتیں بہت خوبصورت ہوتی تھیں جنہیں تصور میں لاتے ہی ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر بکھر جاتی ہے۔
شام کو لوگ ایک جگہ اکٹھے ہوتے اور مختلف موضوعات پر باہم تبادلہ خیال کرتے۔ اس محفل میں حقہ ڈھول کا کام دیتا تھا اور اکثر کسان حقہ کے دو چار سُوٹے لگانے کے لیے آ بیٹھتے۔ فدوی اللہ بخشے دادا جی کو بعض دفعہ حقہ دھر کر دیا کرتا تھا جبکہ حقہ میں پانی ڈالنا تو میری ڈیوٹی ہوتی تھی۔ رات کو ہم بچوں نے چوراہے میں باڈی کھیلنی۔ باڈی بنانے کے لیے لوٹے میں پانی بھر کر زمین پر لائنیں لگا دینی۔ چاند کی روشنی میں یہ لائنیں نمایاں نظر آتی تھیں یہاں تک کہ صبح بھی ان کے آثار نمودار رہتے تھے۔ منے بھنڈر کی کھٹیاں توڑ کر لانی اور آکر کھٹیوں کو سالن میں نچوڑ کر سالن کا مزہ دوبالا کرنے کی تو بات ہی نرالی تھی۔
بعد ازاں پنڈ میں بجلی آگئی اور کسانوں کو آرام پرست اور سست بنادیا، صوتی آلودگی کا آغاز ہوگیا اور پرسکون ماحول کا جنازہ نکل گیا، لوک گیتوں، ماھیوں، ٹپوں، ککلی، وغیرہ کی جگہ پاپ میوزک اور فلمی گانوں نے قبضہ کرلیا۔ آج بھی میں اپنے پِنڈ جاتا ہوں لیکن تب جب کوئی غمی خوشی کا موقع ہو یا پھر زمینوں کے معاملات جاننے کے لیے دورہ کرتا ہوں۔ اب تو پنڈ، پنڈ رہا ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب گاؤں جانے کو زیادہ دل نہیں کرتا۔ بہرحال چونکہ ہر عروج کو زوال ہے لہذا امید ہے کہ ہم نہ سہی ہماری آنے والی نسلیں ایک بار پھر گاؤ ں کی طرف لوٹ جائیں گی بشرطیکہ سرمایہ دارانہ نظام جڑ سے اکھڑ جائے۔ بقول شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال:
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے